Maktaba Wahhabi

261 - 534
کیے ہوئے تھی۔[1] رومیوں کی شکست دیکھ کر مصری نکل کھڑے ہوئے، اور مسلمانوں کے ان راستوں کو درست کرنے لگے جس کو دشمن نے تباہ و برباد کر دیا تھا، ان پلوں کی تعمیر کرنے لگے جن کو انہوں نے توڑ دیا تھا، اس دشمن پر مسلمانوں کی فتح دیکھ کر مصریوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا جس نے ان کی عزتوں کو لوٹا تھا، ان کے مال و جائداد کو برباد کیا تھا، اور مسلمانوں کے لیے اسلحہ اور جنگی ساز و سامان فراہم کیا تھا۔[2] جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اسکندریہ پہنچے تو اس کا محاصرہ کر لیا، منجنیقیں نصب کر دیں، اور اسکندریہ کی فصیلوں پر گولہ باری کرتے رہے یہاں تک کہ وہ کمزور ہو گئیں، اور گولہ باری کی شدت جاری رکھی یہاں تک کہ اسکندریہ کے لوگوں کی ہمت پست ہو گئی اور فصیلیں ٹوٹ گئیں، اور اس محفوظ شہر نے اپنے دروازے ان کے سامنے کھول دیے، اور مسلمانوں اسکندریہ میں فاتحانہ طریقہ سے داخل ہو گئے، اور رومیوں کو دل کھول کر قتل کیا عورتوں اوربچوں کو اسیر کیا، اور جو موت سے بچ نکلے وہ کشتیوں کی طرف بھاگے تاکہ اس طرح وہ اپنے مرکز کو واپس لوٹ جائیں، اس جنگ میں منویل قتل ہوا۔ مسلمان برابر قتل و قید کرتے رہے یہاں تک کہ شہر کے وسط میں پہنچ کر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ان کو اس وقت جنگ سے رک جانے کا حکم دیا جب کہ مقابلہ کے لیے ان کے سامنے کوئی باقی نہ رہا۔[3] جب مسلمان جنگ سے فارغ ہوئے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے شہر کے وسط میں جہاں قتال بند کیا تھا مسجد تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا اور اس کا نام ’’مسجد رحمت‘‘ رکھا۔[4] اس قدیم دارالحکومت میں امن و امان بحال ہوا۔ مصریوں کے دلوں سے شکست کا احساس ختم ہوا، جو لوگ رومی حملہ کے خوف سے بھاگ گئے تھے وہ واپس ہوئے اور قبطیوں کا بطریق بنیامین جو رومی حملہ کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اسکندریہ واپس آیا، اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے گزارش کرنے لگا کہ وہ قبطیوں سے کسی قسم کا مواخذہ نہ کریں کیوں کہ انہوں نے عہد و پیمان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، اسی طرح اس نے آپ سے گزارش کی کہ رومیوں سے مصالحت نہ کریں البتہ جب وہ مر جائے تو اس کو ’’یحنس‘‘ کنیسہ کے اندر دفن کرنے کی اجازت دے دیں۔[5] ہر چہار جانب سے مصری باشندے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، رومیوں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے پر ان کا شکریہ ادا کرنے لگے، اور آپ سے مطالبہ کیا کہ جنگ میں ان کے جو مال و مویشی لوٹے
Flag Counter