Maktaba Wahhabi

193 - 534
اپنے قرابت داروں پر اس کو خرچ کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ذوی القربیٰ سے مقصود آپ کے قرابت دار تھے اور آپ کی وفات کے بعد اس سے مقصود امام وقت اور آپ کے جانشین کے قرابت دار ہیں کیوں کہ امام وقت کی نصرت و تائید فرض ہے اور اس کے اعزہ و اقرباء جس طرح اس کی نصرت و تائید کر سکتے ہیں، دوسرے نہیں کر سکتے۔ عام طور سے عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جن لوگوں نے زمام خلافت سنبھالی وہ اپنے بعض اقارب کو عہدے یا مال سے نوازتے رہے ہیں۔‘‘[1] نیز علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ نے مال سے متعلق جو موقف اختیار کیا، اس کے تین مآخذ ہیں: ٭ آپ نے اپنے اقرباء کو عامل مقرر کیا اور عامل غناء و مال داری کے باوجود مستحقین میں سے ہے۔ ٭ ذوی القربیٰ کا جو حصہ قرآن میں مذکور ہے اس سے مقصود امام وقت کے اقرباء ہیں۔ ٭ عثمان رضی اللہ عنہ کے قرابت دار ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے اقرباء کی طرح تھوڑے نہیں تھے بلکہ آپ کا قبیلہ بہت بڑا تھا اس لیے آپ کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں اپنے اقارب کو عہدے و مناصب عطا کرنے اور عطیات دینے کی زیادہ ضرورت پیش آئی ، عثمان رضی اللہ عنہ نے خود اس سے استدلال کیا ہے۔ [2] ۲:…تاریخ طبری میں ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے جب عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو مصر سے تیونس پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا تو ان سے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے افریقہ پر تمھیں فتح عطا کی تو مسلمانوں کو جو مال غنیمت حاصل ہو گا اس کے خمس کا خمس تمھیں دیا جائے گا۔ وہ اپنی فوج لے کر مصر سے نکلے اور افریقہ کی سر زمین میں گھس گئے اور اس کے میدانی اور پہاڑی علاقوں کو فتح کر لیا اور مال غنیمت کو اپنی فوج میں تقسیم کیا اور پھر خمس کے پانچ حصے کیے ایک حصہ خود لے لیا اور چار حصے ابن و ثیمہ نضری کے ہاتھ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مدینہ بھیج دیے۔ جو وفد اس کے ساتھ مدینہ پہنچا اس نے عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی شکایت کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں نے ہی عبداللہ بن سعد کو اس کا حکم دیا تھا اور اگر آپ لوگ اس کو ناپسند کرتے ہیں تو اس کو لوٹا لیتا ہوں۔ ان لوگوں نے کہا: ہمیں یہ نا پسند ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ یہ مال واپس کر دو۔ انہوں نے واپس کر دیا۔[3] احادیث سے مال داروں اور جہاں میں برادری کا جوہر دکھانے والوں کو عطیات دینا ثابت ہے۔[4] ۳:…فتح افریقہ کے موقع پر خمس اور حیوانات اس قدر باقی رہ گئے تھے کہ جن کا مدینہ منتقل کرنا دشوار تھا،
Flag Counter