Maktaba Wahhabi

192 - 534
تاریخی کتابوں میں اسے جگہ مل گئی اور بعض مفکرین و مؤرخین نے اس باطل پروپیگنڈہ کو حقیقت تصور کر لیا حالاں کہ یہ باطل ہے، ثابت نہیں کیوں کہ یہ موضوع و من گھڑت ہے اور اعزہ و اقرباء کو عطیات سے متعلق جو روایات ثابت ہیں وہ آپ کے مناقب میں سے ہیں، مثالب میں سے انہیں تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ۱:…عثمان رضی اللہ عنہ بہت بڑے مال دار اور دولت مند آدمی تھے صلہ رحمی میں بہت ہی آگے تھے[1]، صلہ رحمی میں بے دریغ اپنا مال خرچ کرتے تھے۔ شرپسند لوگوں نے اس کو ناپسند کیا اور آپ پر اتہام لگایا کہ آپ بیت المال سے صلہ رحمی کرتے ہیں اور اپنے اعزہ و اقرباء پر خرچ کرتے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اتہام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں کا کہنا ہے کہ میں اپنے خاندان والوں سے محبت کرتا ہوں اور انہیں مال دیتا ہوں۔ واضح رہے ان کے ساتھ میری محبت انہیں جو ر و ظلم پر نہیں ابھارتی بلکہ میں ان پر حقوق و واجبات کو عائد کرتا ہوں… رہا میرا انہیں عطیات دینا تو واضح رہے میں انہیں اپنے مال خاص سے عطا کرتا ہوں میں مسلمانوں کے مال کو نہ اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور نہ کسی اور کے لیے، میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہ کے ادوار میں بھی بڑے بڑے عطیات اپنے مال خاص سے لوگوں کو دیتا رہا ہوں اور کیا اب میں بخیل و حریص ہو گیا ہوں؟ کیا اب جب کہ میری عمر خاندان کی عمر سے تجاوز کر گئی ہے اور میری عمر ختم ہو چکی ہے اور اہل و عیال کے سلسلہ میں خواہشات کو الوداع کہہ چکا ہوں، ملحدین ایسی باتیں کہتے ہیں۔ [2] عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی جائداد اور مال و زمین کو بنو امیہ کے درمیان تقسیم کر دیا اور اپنی اولاد کو اور لوگوں کے برابر ہی دیا چنانچہ بنو ابو العاص سے تقسیم کرنا شروع کیا، آل حکم کو عطا کیا، ان کے مردوں کو دس دس ہزار عطا کیا اس طرح انہیں ایک ایک لاکھ ملا اور بنو عثمان کو اسی کے مثل دیا۔ بنو عاص، بنو عیص اور بنو حرب میں تقسیم کیا۔[3] اس طرح کے یہ نصوص جو عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور ہیں اور اسی طرح احادیث صحیحہ جو آپ کے فضائل و مناقب میں وارد ہیں، اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ پروپیگنڈہ کہ آپ بیت المال میں اسراف کرتے اور اپنے اعزہ و اقرباء اور قصور ومحلات پر بے دریغ خرچ کرتے تھے، سراسر بے بنیاد ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے اس اتہام سے براء ت کے باوجود بعض علماء کی رائے ہے کہ مال غنیمت میں ذوی القربیٰ کا حصہ امام وقت کے اقرباء کا حق ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ذوی القربیٰ کے حصہ سے متعلق بعض فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ یہ امام وقت کے قرابت داروں کا حق ہے جیسا کہ حسن بصری اور ابو ثور رحمہما اللہ کا قول ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی امامت کے پیش نظر
Flag Counter