Maktaba Wahhabi

94 - 413
البدر بأن مراد الحاکم أن الشیخین قد احتجابمثل رجال الإسناد لاأنھم من رجا لھما معاً انتھی )) [1] اس اعتراف کے بعد قارئین کرام فیصلہ فرمائیں کہ اوپر بیہقی ،دارقطنی اور حاکم رحمۃ اللہ علیہم کے حوالے سے مذکورہ حدیث، جسے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے علی شرطھما صحیح کہا ہے اور مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح نہیں۔ کیا کوئی جواز باقی رہتا ہے کہ وہ یہ فرمائیں کہ یہ شرط بخاری ومسلم پر صحیح نہیں کیونکہ اس کے راوی بخاری مسلم کے نہیں؟ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ حسب منشأروایت کے راوی بخاری کے نہ ہوں تو ایک اصول امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے بارے میں اختیار کر لیا جائے اور جب دوسرے فریق کی روایت ہو تو وہ علی شرط شیخین نہ رہے کہ اس کے راوی شیخین کے راوی نہیں ہیں۔ فاعتبروایا أولی الأبصار یہاں مزید ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ التلخیص الحبیر [2] کے حاشیہ میں ’’البدر المنیر‘‘ ہی کے حوالے سے علامہ ابن الملقن رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ جب ہم امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ سے تصحیح نقل کر کے خاموشی اختیار کریں ’ فشد علی ذلک یدیک‘ اس پر اپنے ہاتھ مضبوط کر لو، کیونکہ ہم نے اس کی اسانید کا جائزہ لیا ہے۔ الخ علامہ ابن الملقن رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مقدمہ البدر المنیر[3] میں موجود ہے۔ پہلے قول کی طرح امید ہے مولانا صاحب اس سے بھی اتفاق کرتے ہوں گے۔ علامہ ابن الملقن نے دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی یہ روایت البدر المنیر[4] میں نقل کی ہے اور حاکم سے اس کا ’صحیح علی شرط الشیخین‘ ہونا نقل کیا ہے اور کوئی اعتراض نہیں کیا۔لہٰذا چاہیے کہ ان کے اس موقف پر اس کی تصحیح پر ہاتھ مضبوط کرلیں۔ مگر ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
Flag Counter