Maktaba Wahhabi

93 - 413
حاکم رحمۃ اللہ علیہ کیا امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حسن اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حسن صحیح کہا ہے۔ بلکہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سکوت کیا اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی التلخیص [1] میں اس کی تحسین وتصحیح نقل کی ہے،مگر اس کے باوجود یہ روایت صحیح نہیں۔ حضرت مولانا کے الفاظ پر غور فرمائیں انھوں نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر تو نقد کر دیا،مگر یہ نہیں بتلایا کہ یہ حسن بھی ہے یا نہیں؟ اور اس میں بھی ان کی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے قول ’صحیح علی شرطھما‘ کے بارے میں کہا کہ’ لیس بصحیح‘ یہ صحیح نہیں۔ اس لیے کہ اگر انھی کے اصولوں کے تناظر میں اس پر نقد کیا جائے تو کہہ دیا جائے کہ ہم نے ’ علی شرطھما‘ صحیح ہونے کی نفی کی ہے حسن یا صحیح ہونے کی نفی تو نہیں کی۔ جس سے ان کے اصولوں کی بے اصولیوں کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ مزید برآں یہ بھی دیکھئے کہ مولانا صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر نہیں کیونکہ اس کا راوی بخاری ومسلم کا نہیں۔ حالانکہ مولانا صاحب تو فرماتے ہیں: کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ شیخین نے ان جیسے راویوں سے روایت کی ہے یوں نہیں کہ اس کے راوی شیخین کے راوی ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث جس کے بارے میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس کے راوی ’صحیح علی شرطھما‘ شیخین کی شرط پر ہیں اور اس پر علامہ ابن دقیق العید نے اعتراض کیا ہے کہ اس کے راوی شرط بخاری پر نہیں تو اس کے دفاع میں البدر المنیر سے نقل کیا ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ شیخین نے اس جیسے راویوں سے روایت کی ہے نہ یہ کہ وہ شیخین کے راویوں میں سے ہیں۔ چنانچہ التلخیص الحبیر مطبوعہ ہند[2] کے حاشیہ سے نقل کرتے ہیں: ((واعترض ابن دقیق العید کونہ علی شرط البخاري ، ودفعہ فی
Flag Counter