Maktaba Wahhabi

83 - 413
حجر رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت پر مطمئن نہیں۔ اس لیے ان کے حوالے سے یہ دعوی محلِ نظر ہے۔ بلکہ قبل ازیں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت کے ضمن میں التلخیص کی مسکوت عنہ ایک روایت کا ذکر ہو چکاہے جس کا راوی وضاع اور متروک ہے۔ ایسے راوی کے ہوتے ہوئے یا سند میں مجہول یا ضعیف راوی ہونے کے باوجود اس اصول سے استدلال کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ بلکہ خود مولانا عثمانی نے کئی مقامات پر اپنے اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ چنانچہ التلخیص[1] سے تراویح کے بارے میں ایک روایت نقل کی ہے جس کی سند کو حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حسن کہا ہے۔ مگر حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے اس فیصلے کے برعکس حضرت موصوف فرماتے ہیں: سند میں محمد بن عبد الرحمن بن کامل ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا لیکن حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے شائد وہ ان کے نزدیک ثقہ یا لابأس بہ ہو۔ اس کے علاوہ سند میں سعید بن حفص کا آخر عمر میں حافظہ متغیرہو گیا تھا اور ہمیں معلوم نہیں کہ اس سے محمدبن عبد الرحمن بن کامل نے تغیر سے پہلے سنا ہے یا بعد، یہ زیادت اسی سند سے ہے اس لیے شاذہے۔‘‘ [2] اندازہ کیجئے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے ’’اسنادہ حسن‘‘ کہنے کے باوجودمولانا صاحب نے روایت کو شاذ اور اس کے راوی پر نقد کیا ہے یا نہیں؟ اصول کہاں گیا؟ تعجب ہے کہ محمد بن عبد الرحمن بن کامل کا ترجمہ انھیں نہیں ملا تو اس سے انھوں نے خبردار کر دیا۔ حالانکہ ان کے نزدیک اگر راوی میزان اور لسان المیزان میں نہیں تو وہ ثقہ یا مستور ہوتا ہے۔ چنانچہ عبدالرحمن بن جساس کے بارے میں فرماتے ہیں: ((لم یذکرہ الذھبی فی المیزان ولا الحافظ فی اللسان فھو ثقۃ أومستور)) [3]
Flag Counter