Maktaba Wahhabi

73 - 413
اسے متروک کہتے ہیں۔‘‘ الحارث بن عمیر کے بارے میں انھوں نے فرمایا:’ انا اتعجب کیف خرج لہ النسائی[1] ’’ مجھے تعجب ہے کہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث کی تخریج کیسے کی ہے۔ ‘‘یزید بن کعب مجہول ہے،مگر نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور ابوداود رحمۃ اللہ علیہ اس سے روایت لائے ہیں۔[2] اسماعیل بن عیاش کو خود انھوں نے بھی ضعیف کہا ہے،مگر اس سے استدلال بھی کرتے ہیں۔[3] یہ اور اسی نوعیت کی مزید تفصیل ہمارا موضوع نہیں۔ ہم نے صرف اشارتاً دوسرے پہلو کی وضاحت کی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں مولانا عثمانی نے یہ اصول جہاں مناسب سمجھا اپنا لیا اور جہاں اپنے موقف کے خلاف جانا وہاں اس سے اغماض فرمایا:مثلاً نافع بن محمود کی اسی روایت کو ہی لیجئے جس کا ابھی ہم امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت پر بحث کے ضمن میں ذکر کر آئے ہیں۔ اسے امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر کیا ہے اور اس پر سکوت کیا ہے اس کا تقاضا تو تھا کہ یہ روایت صحیح تسلیم کی جاتی اور نافع کی توثیق بھی مان لی جاتی،مگرمولانا صاحب نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب ہم قارئین پر چھوڑ تے ہیں۔ اسی طرح حدیث ماء قلتین کو بھی امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے۔[4] اس کے بارے میں حضرت عثمانی اور علامہ نیموی کی رائے آپ پہلے ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ بئرِ بضاعۃ کی حدیث جو عبید اللہ بن عبد الرحمن بن رافع کی سند سے ہے اور سنن نسائی[5] میں بھی مذکور ہے ۔ آپ پڑھ آئے ہیں کہ علامہ نیموی اسے بھی عبید اللہ کے مستورہونے کی بنا پر ضعیف کہتے ہیں۔ یہی روایت امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد ایک اور سند سے بھی بیان کی ہے۔ اس کے بارے میں بھی علامہ نیموی فرماتے ہیں: ’ ھذا الإسناد ضعیف أیضاً‘ یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ خالد بن ابی نوف نے اسے سلیط سے نہیں سنا۔‘‘[6] حالانکہ ان کا یہ دعوی بلادلیل
Flag Counter