Maktaba Wahhabi

72 - 413
((ونا ھیک بصحتہ إخراج النسائی إیاہ بطریق کثیر بن کثیر عن أبیہ عن جدہ وسکوتہ عنہ)) [1] ’’تمھارے لیے اس کی صحت کے لیے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا کثیر بن کثیر عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ذکر کرنا اور خاموش رہنا کافی ہے۔‘‘ بلکہ ایک روایت جسے علامہ منذری نے منقطع قرار دیا ہے اس کے دفاع میں حضرت موصوف نے فرمایا ہے کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت دلیل ہے کہ یہ متصل ہے۔[2] جیسا کہ تفصیلاً ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ مگر یہ موقف بھی قطعا صحیح نہیں حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((إنہ غیر مسلم فإن فیہ رجالاً مجھولین إما عیناً أوحالاً وفیھم المجروح وفیہ أحادیث ضعیفۃ معللۃ ومنکرۃ) [3] ’’یہ بات مسلم نہیں(کہ اس کی احادیث صحیح ہیں) کیونکہ اس میں مجہول العین، مجہول الحال ،مجروح راوی ہیں اور اس میں ضعیف معلول اور منکر احادیث ہیں۔‘‘ یہی بات ان سے قبل علامہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے مقدمہ[4] میں کہی ہے۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ السنن میں عبد الکریم بن ابی المخارق، عبد الرحمن بن یزید بن تمیم، سلیمان بن ارقم، ربیعۃ بن سیف ، بریدۃ بن سفیان الأسلمی ، ابراہیم بن اسماعیل بن ابی حبیبۃ، اسماعیل بن ابی ادریس، اشعث بن سوار، نضربن کثیر بصری ایفع اوربلال وغیرہ جیسے ضعیف ،متروک، منکر الحدیث اور مجہول راویوں کی روایتوں پر بھی امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے۔ بلکہ عبد الرحمن بن یزید کے بارے میں علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ((ھذا عجیب اذ یروی لہ ویقول متروک)) [5] ’’یہ عجیب بات ہے کہ اس کی روایت ذکر کرتے ہیں اس کے باوجود
Flag Counter