Maktaba Wahhabi

61 - 413
یصح)) کا مفہوم یہی بیان کرتے ہیں ((أی لم یثبت ھذا الحدیث)) ’’یعنی یہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘[1] افسوس کا مقام ہے حضرت موصوف کے پیشِ نظر یہ الفاظ بھی تھے مگر اس کے باوجود فرماتے ہیں:((لم یصح)) سے حسن کی نفی نہیں ہوتی۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون ابراہیم بن اسماعیل کو ’’مقارب الحال‘‘ بنانے کے علاوہ انھوں نے یہ بھی فرمایا: ’’شائد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سند میں لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اسے’لم یصح‘ کہا ہے۔ حالانکہ ہم نے متعدد بار ذکر کیا ہے کہ وہ حسن الحدیث ہے اس کی توثیق کی گئی ہے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے استشہاد کیا ہے۔‘‘[2] لیث بن ابی سلیم کیسا راوی ہے سرِدست ہمیں اس سے بحث نہیں ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ قارئینِ کرام’’امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین‘‘ کے عنوان کے تحت لیث ہی کے حوالے سے حضرت صاحب کا دوسرا موقف بھی ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ علاوۂ ازیں لیث بن ابی سلیم کا ضعف ہی نہیں اس کا اس سند میں اضطراب بھی ملحوظِ خاطر رکھتے تو شاید یہاں ضرورتاً جو لیث کا دفاع کیا ہے اس کی جسارت نہ کرتے۔ یہ اعتراض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے التاریخ الکبیر میں ابراہیم کے ترجمہ میں اور علامہ المزی نے تہذیب الکمال میں اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب التہذیب میں اسماعیل بن ابراہیم اور حجاج بن عبید کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے ۔کیا مضطرب سند سے مروی روایت بھی حسن ہوتی ہے؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اس فیصلے کے بعد محض امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت سے استدلال طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں۔ خود حضرت عثمانی ہی نے تو فرمایا ہے : ((کفی بالبخاری قدوۃ فی التنقید)) [3] ’’تنقید میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہی کافی ہے۔‘‘
Flag Counter