Maktaba Wahhabi

60 - 413
’’جب ابراہیم بن سعید معروف نہیں ،وہ نافع سے روایت کرے تو غلطی کرے اس کے باوجود اے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ، !اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ فرماتے ہیں وہ مقارب الحال ہے۔‘‘ اس لیے مولانا عثمانی کی ابراہیم بن سعید المدنی کو قابلِ استدلال بنانے کی یہ ساری کارروائی بہر نوع بے کار ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے یہ عجیب بات بھی فرمائی کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اسے لم یصح کہنے سے اس کے حسن ہونے کی نفی نہیں ہوتی ہے ان کے الفاظ ہیں: ((لم یصح، فلا یفید نفی الحسن عنہ )) یہ واقعی بڑی فقیہانہ تحقیق ہے مگر کیا حضرت موصوف کے علم میں یہ نہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کے ’ باب مکث الإمام فی مصلاہ بعد السلام)) میں اسے اگر((لم یصح)) کہا ہے تو التاریخ الکبیر[1] میں اسے((ولم یثبت ھذا الحدیث)) کہ ’’یہ حدیث ثابت نہیں۔ ‘‘بھی قرار دیا ہے۔ اور ان کا یہ قول حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا ہے ان کے الفاظ ہیں: ((وذلک لضعف إسنادہ واضطرابہ، تفردبہ لیث بن أبی سلیم واختلف علیہ فیہ، وقدذکر البخاری الإختلاف فیہ فی تاریخہ وقال: لم یثبت ھذا الحدیث)) [2] ’’یہ روایت اس لیے صحیح نہیں کہ اس کی سند ضعیف اور مضطرب ہے، لیث بن ابی سلیم منفرد ہے اور اس پر اس میں اختلاف بیان کیا گیاہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘ علامہ عینی نے گو سکوت ابی داود سے اسے سہارا دینے کی کوشش کی ہے تا ہم وہ بھی ((لم
Flag Counter