Maktaba Wahhabi

53 - 413
کہ اس پر امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے لہٰذا یہ استدلال کے قابل ہے۔ اور امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صالح اور حسن ہے۔[1] بلکہ ایک روایت جسے سلیمان بن موسی حضرت جابر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں جسے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے۔ علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت کے باوجود کہ سلیمان بن موسیٰ نے حضرت جابر سے نہیں سنا اس لیے یہ منقطع ہے۔[2] مگر اس انقطاع کے دفاع کے بارے میں بھی فرمایاگیا کہ ((سکوتھما علیہ یدل علی انہ متصل عندھما)) [3] کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر سکوت دلیل ہے کہ وہ ان کے نزدیک متصل ہے۔ گویاابو داود رحمۃ اللہ علیہ میں اگر روایت منقطع ہو تو امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا سکوت اس کے اتصال کی دلیل ہے۔ ظاہر ہے کہ یوں تو ابوداود رحمۃ اللہ علیہ میں مدلس کی معنعن روایت بھی امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت سے متصل اور صحیح شمار ہو گی۔ ہمیں اعتراف ہے کہ علامہ زیلعی اوربسا اوقات علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ اپنی تصانیف میں اس اصول کا ذکر کرتے ہیں کہ جس روایت پر امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ سکوت کریں وہ حسن،صحیح ہوتی ہے،لیکن امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت سے ہر حدیث کو حسن اور صالح اللاحتجاج قرار دینے کا موقف صحیح نہیں۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے النکت میں اس پر بڑی طویل اور نفیس بحث کی ہے اور کہا ہے کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمانا کہ جس حدیث پر میں سکوت کروں وہ ’’صالح‘‘ ہے اس کی متعدد اقسام ہیں۔ ان میں بعض ایسی ہیں جو صحیحین میں ہیں، وہ بھی ہیں جو صحیح کی شرط پر ہیں اور وہ بھی ہیں جو حسن لذاتہٖ ہیں، وہ بھی ہیں جو حسن لغیرہٖ ہیں اور وہ بھی جو ضعیف ہیں۔ اس لیے ان کے کلام میں’’صالح‘‘ سے مراد تمام کی تمام حسن اصطلاحی مراد نہیں ہیں، بلکہ اس میں حارث بن وجیہ،صدقہ دقیقی ، عثمان بن واقدعمری،محمد بن عبد الرحمن البیلمانی، ابو جناب کلبی،سلیمان بن ارقم، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی فروہ وغیرہ جیسے متردک اور
Flag Counter