Maktaba Wahhabi

413 - 413
((فیہ دلالۃ صریحۃ علی وجوب القنوت فی الوتر وثبوت التکبیرلہ، فعرف بہ عدم تفرد إمامنا فی القول بوجوبہ))الخ[1] ’’اس میں قنوتِ وتر کے وجوب اور اس کے لیے تکبیر کے ثبوت کی صریح دلیل ہے اس سے معلوم ہوا کہ وتر کو واجب کہنے میں ہمارے امام منفرد نہیں۔‘‘ یہ قول سنداً صحیح ہے یا نہیں ہمارا یہاں یہ موضوع نہیں۔ ہم عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے لیے ’’واجب‘‘ کا لفظ بولا تو یہ فقہاء کے نزدیک اصطلاحی وجوب ٹھہرا، جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے۔ اس کے برعکس یہ بھی دیکھئے کہ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: کہ نمازِ فجر سے پہلے کی دو رکعتیں واجب ہیں، چنانچہ خود انھوں نے فتح الباری سے بحوالہ ابن ابی شیبہ نقل کیا ہے۔ ((کان الحسن یری الرکعتین قبل الفجر واجبتین)) مگر امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں: ((إن مراد الحسن رحمہ اللّٰه البصری من الوجوب لیس الوجوب المصطلح عند الحنفیۃ، فإن ھذا الإصطلاح لم یکن ھناک))الخ [2] ’’امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی مراد وجوب سے حنفیہ کے نزدیک اصطلاحی وجوب نہیں۔کیونکہ یہ اصطلاح تو اس وقت تھی ہی نہیں۔‘‘ بلاشبہ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں اصطلاحی وجوب متعارف نہیں تھا،مگر کیا امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یہ متعارف تھا؟ جب مولانا عثمانی نے وتر کے لیے امام ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کے قول میں ’’وجوب‘‘ کو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اصطلاحی وجوب کی تائید میں سمجھا ہے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ امام ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہی اصطلاحی وجوب تھا۔ آخر اس کے لیے کون سا پیمانہ ہے کہ امام ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ’’وجوب‘‘ کا لفظ کہیں تو وہ اصطلاحی
Flag Counter