Maktaba Wahhabi

406 - 413
((وإذا اختلف قول الناقد فی رجل فضعفہ مرۃ وقواہ أخری، فالذی یدل علیہ صنیع الحافظ أن الترجیح للتعدیل ویحمل الجرح علی شيء بعینہ)) [1] ’’جب ناقد کاقول ایک راوی کے بارے میں مختلف ہو، ایک بار ضعیف کہا اور دوسری بار اسے قوی کہا: تو حافظ کا اسلوب دال ہے کہ ترجیح تعدیل کو ہو گی اور جرح کو کسی معین شے کے بارے میں محمول کیا جائے۔‘‘ اس اعتراف حقیقت کے بعد امام یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے منقول تضعیف ہی نقل کرنا اور اسی پر اعتماد کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اسی طرح امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح تو مولانا صاحب کو تہذیب میں نظر آگئی ،مگر اسی میں ان کا قول ’لیس بہ بأس‘ ان کی نظر عمیق کی نذر ہو گیا۔إناللہ وإنا إلیہ راجعون۔ ابھی ہم مولانا عثمانی کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں کہ ایک امام سے کسی راوی کی توثیق اور تضعیف میں اختلاف ہو تو اعتبار توثیق کا ہو گا مگر اس اصول سے خود ان کی بے اصولی نمایاں ہے۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بلاشبہ صدوق کے ساتھ ’ربما وھم‘ کہا ہے،مگر خود مولانا صاحب محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی کے دفاع میں ’ربمایھم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((إن لفظ رب للتقلیل علی الحقیقۃ فھو جرح خفیف لایخل بالاحتجاج)) [2] ’’کہ لفظ ’’رب‘‘ (جو کہ راوی کے صدوق ربمایھم کے تناظر میں ہے) حقیقتاً قلت کے لیے ہے یہ خفیف جرح ہے جو استدلال میں مخل نہیں۔‘‘
Flag Counter