Maktaba Wahhabi

401 - 413
اصول کا سہارا لیا گیا کہ ضعیف حدیث قیاس سے بہتر ہے،مگر سوال یہ ہے کہ کونسی اور کیسی ضعیف؟ آپ اوپر مولانا ہی کے الفاظ میں پڑھ آئے ہیں کہ ضعیف سے مراد صحیح سے کم تر ہے، اصطلاحی ضعیف نہیں جو’’ لاشیء‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ’’وازع بن نافع‘‘ اس درجہ ضعف کا راوی ہے،جوصحیح سے کم تر ہوتا ہے یا اس زمرہ میں آتا ہے جو’’ لاشیء‘‘ ہے؟ جب کہ امر واقع یہ ہے کہ وازع کو امام احمد، ابن معین اور ابوداود رحمۃ اللہ علیہم نے لیس بثقۃ کہا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے منکر الحدیث کہا ہے۔ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس کی عموماً روایات محفوظ نہیں۔ دولابی، عقیلی ،ساجی ،ابن الجارود، ابن السکن رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اس کے متروک الحدیث ہونے کی وجہ سے اس کی روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا: وہ بہت ضعیف ہے، لیس بشیء ہے، اپنے بیٹے سے کہا:اس کی احادیث پر نشان لگا دو، کیونکہ وہ منکر ہیں اور انہیں نہ پڑھو۔ (الجرح والتعدیل میں یہ قول امام ابوزرعہ سے ہے) ابراہیم حربی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ’غیرہ أوثق منہ‘ بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ضعیف جدا حاکم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کہا: موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔[1] کوئی ادنی کلمہ اس کی توثیق وتوصیف میں منقول نہیں۔ جرح کے ان کلمات پر غور کیجئے کیا ایسا راوی حسن درجہ کا ہو سکتا ہے؟ اور اس کی ضعیف کیا اس درجہ ومرتبہ کی ہو سکتی ہے جو صحیح سے کم تر ہو؟ خود مولانا صاحب نے قواعد[2] میں کہا ہے کہ اگر راوی پر متروک، لیس بثقۃ، لیس بشیء، ضعیف جدا کی جرح ہو تو اس کی حدیث ’ لایکتب حدیثہ ولا یعتبربہ ولا یستشھد‘ ’’نہ لکھی جائے نہ اسے اعتباراً واستشہاداً ہی قبول کیا جائے۔‘‘ مگر دیکھا آپ نے کہ مولانا صاحب ایسے راوی کی حدیث کو سہارا دینے کے لیے ایک ایسے اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کرتے ہے۔ جس کی خود ان کے مسلّمات کی روشنی میں کوئی گنجائش نہیں۔
Flag Counter