Maktaba Wahhabi

389 - 413
الفقہاء، فالأظہر أن ھذا تابع لعادۃ الحیاۃ ولعل الرسم کان فی ذلک العصر کذلک، فاختیرلھا ذلک لالکون ذلک دیناً والأمر واسع)) [1] ’’رہی یہ بات کہ عورت کے بالوں کی دوچوٹیاں بنائی جائیں جیسا کہ ہمارے فقہاء نے کہا ہے، یا تین چوٹیاں، جس طرح اس واقعہ میں صحابیات نے کیا ہے، اور اسی طرح انھیں پیچھے ڈالنا جیسا کہ بخاری کی اس حدیث میں ہے، یا انھیں سینے پر ڈالنا جیسا کہ ہمارے فقہاء نے کہا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے یہ زندگی کی عادت کے تابع ہے شاید اس زمانے میں اسی طرح ہو جس بنا پر انھوں نے ایسا کیا، یوں نہیں کہ دین کا یہی مسئلہ ہے، بلکہ اس معاملے میں توسع ہے۔‘‘ سبحان اللہ فقہی بصیرت ہو تو ایسی ہو، ایک عمل جسے صحابیات نے کیا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیا،امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ’باب یجعل شعرالمرأۃ ثلاثۃ قرون‘ اور ’باب یلقی شعرالمرأۃ خلفھا‘ قائم کر کے اس سے اسی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ مسئلہ زندگی کی عادت کے تابع بنا دیا جائے۔ صرف اس لیے کہ ہمارے فقہاء کی کوئی بات بن پائے۔ کتبِ فقہ میں جب دو چوٹیاں بنا کر سینے پر ڈالنے کا جوذکر ہے یہ ’’دین‘‘ ہے یا نہیں؟اگر یہ عادت پر موقوف تھا تو اسے ماحول اور معاشرے کے عادات پر رہنے دیا جاتا ایک طریقہ کی تعیین اور اس پر مسلسل عمل چہ معنی دارد؟ تین چوٹیاں بنانے کے حکم نبوی ہونے کا اعتراف تو علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے البتہ انھیں پیچھے ڈالنے میں انشراح نہیں، فرماتے ہیں: ((فإن قلت: جاء فی حدیث ابن حبان ’واجعلن لھا ثلاثۃ قرون‘ قلت: ھذا أمربالتضفیر ونحن لاننکر التضفیر حتی یکون الحدیث
Flag Counter