Maktaba Wahhabi

385 - 413
کھلائے ہیں اور کس طرح ان کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس حقیقت کا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے کے مطابق اعتراف کیا ہے کہ اس باب میں ’’اصح‘‘ روایات تین چادروں والی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں عمامہ اور قمیص نہ تھی۔[1] ہم جو بات عرض کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ حضرت مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے یہ بھی فرمایا: ((فإن حال الکفن والدفن أکشف للرجال دون النساء، ونفی القمیص لم نرہ إلافی قول عائشۃ، وأما علی وابن عباس وابن عمر وعبد اللّٰه بن مغفل فقد حکوا تکفین النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم فی ثلاثۃ أثواب فقط، ولم یتعرضوا لنفی القمیص فیما علمنا وورد عن بعضھم الزیادۃ علی الثلاثۃ، وعن بعضھم إثبات القمیص أیضاً فالحق أن استدلال الخصم بحدیث عائشۃ علی نفی القمیص لایتم أصلاً)) [2] ’’کفن ودفن کا معاملہ زیادہ تر مردوں سے متعلق ہے نہ کہ عورتوں سے، اور قمیص کی نفی ہم صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول میں دیکھتے ہیں۔ رہے حضرت علی، ابن عباس، ابن عمر، عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں صرف تین کپڑوں کا ذکر کرتے ہیں،ہمارے علم کے مطابق وہ قمیص کی نفی نہیں کرتے، بعض سے تین چادروں سے زیادہ میں کفن دینے کا ذکر ہے اور بعض قمیص کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ لہٰذا حق یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے قمیص کے نہ ہونے پر فریق مخالف کا استدلال بالکل تام نہیں۔‘‘ ہم تو ان کی اس نکتہ آفرینی کو تھانہ بھون کی فقاہت کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں۔کیونکہ صدیقہ
Flag Counter