Maktaba Wahhabi

373 - 413
کا کام تمام کر دیتا۔ اسی سے یہ ہر اس شخص کے لیے ضرب المثل چل نکلی کہ جس سے ناامیدی ہو جاتی تو کہتے ’’علی یدی عدل‘‘ اور مفہوم ہوتا کہ وہ ماراگیا۔[1] علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے العرف الشذی[2] میں، دکتور سعدی الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح ألفاظ التجریح النادرۃ أوقلیلۃ الاستعمال[3] میں، دکتور عبد العزیز عبد الطیف رحمۃ اللہ علیہ نے ضوابط الجرح والتعدیل[4] میں، شیخ ابوغدہ رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیقات علی الرفع والتکمیل[5] میں اس کی وضاحت کی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ مولانا موصوف نے اس پر توجہ نہ دی ہو اور چل چلاؤ میں اسے تعدیل سمجھ لیا ہو،مگر وہ اتنا تو دیکھتے کہ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ قاسم بن ابی شیبہ کی مثل ہے اور یہ الفاظ خود انھوں نے نقل کیے ہیں۔ قاسم کا ترجمہ دیکھنے کی زحمت فرمالیتے تو شاید اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوتے،مگر عجلت میں جب توثیق مطلوب تھی تو قاسم کے ترجمہ کی طرف انھوں نے التفاف ہی غیر ضروری سمجھا۔ فوااسفا چنانچہ قاسم کے بارے میں ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: ((کتبت عنہ وترکت حدیثہ، وقال أبوزرعۃ کتبت عنہ ولم أحدث عنہ بشيء)) [6] ’’میں نے اس سے حدیثیں لکھی ہیں،مگر انھیں ترک کر دیا ہے اور امام ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: میں نے اس کی حدیثیں لکھی ہیں،مگر اس کی کوئی روایت بھی بیان نہیں کی۔‘‘ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: کہ امام ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے سماع کیا ’ثم ترکاحدیثہ‘ پھر ان دونوں نے اس کی حدیث ترک کر دی۔[7] امام الساجی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی اسے متروک کہا ہے۔[8] لہٰذا مولانا موصوف تنہا ’’علی یدی عدل‘‘ نہ دیکھتے
Flag Counter