Maktaba Wahhabi

372 - 413
’’ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے :’ھو علی یدي عدل‘ وہ قاسم بن ابی شیبہ کی مثل ہے، اورمسلمہ بن قاسم نے کہا ہے: اس سے ہمارے شہر کے رہنے والے بقی بن مخلد نے روایت کی، جبارہ ان شاء اللہ ثقہ ہے اور عثمان بن ابی شیبہ نے کہا: کہ جبارہ ہم سے زیادہ حدیث کا طالب وحافظ تھا، اس میں جارحین کا کلام بھی ہے۔‘‘ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ ، مسلمہ اور عثمان بن ابی شیبہ کے کلام کے بعد مولانا صاحب کا فرمانا کہ جبارہ ثقہ ہے اور’’اس میں جارحین کا کلام بھی ہے۔‘‘ اس بات کی بین برہان ہے کہ حضرت موصوف امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ کے قول ’علی یدی عدل‘ سے جبارہ کی توثیق باور کروا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ ان کی اصطلاح سے بے خبری کی دلیل ہے۔ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی الفاظ محمد بن خالد بن عبد اللہ الواسطی کے لیے بھی کہے ہیں۔ اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صراحۃً لکھا ہے: ((قولہ: علی یدی عدل، معناہ قرب من الھلاک)) [1] ’’ان کا یہ کہنا کہ وہ ’علی یدی عدل‘ ہے اس کے معنی ہیں کہ وہ ’’ہلاکت ‘‘ کے قریب ہے۔‘‘ بلکہ انھوں نے بالوضاحت یہ بھی فرمایا ہے: ((وظن بعضھم أنھا من ألفاظ التوثیق فلم یصب)) [2] ’’کہ بعض نے سمجھا ہے کہ یہ الفاظ توثیق میں سے ہیں،مگر انھوں نے صحیح نہیں سمجھا‘‘ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہمارے شیخ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: کہ علامہ عراقی انھیں الفاظ تعدیل سمجھتے تھے، مگر یہ درست نہیں،بلکہ یہ الفاظ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک الفاظ جرح میں شمار ہوتے ہیں جس کی حقیقت یوں ہے کہ بادشاہ تبع کے سپاہی کا نام ’’عدل‘‘ تھا اور تبع جب کسی شخص کو قتل کروانا چاہتا تو اسے ’’عدل‘‘ کے سپرد کر دیتا اور وہ اس
Flag Counter