Maktaba Wahhabi

357 - 413
کافروز ندیقنہ کہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے اولیاء میں یہی سنت ہے۔‘‘ حالانکہ ’’بعض محدثین‘‘ نے نہیں بلکہ بہت سے محدثین نے اسے کذاب کہا ہے اور اسے متروک ،لیس بشیء ، لایکتب حدیثہ، لیس بثقۃ قرار دیا ہے کوئی ایک کلمہ توثیق کسی ثقہ محدث اور امام جرح وتعدیل سے ثابت نہیں۔ رہی بات جو اس کے ساتھ مزیدانھوں نے زیب داستان کے طور پر فرمائی ہے تو عرض ہے کہ یہ بتلایا جائے اس کا کون ثقہ امام قائل ہے؟صحابہ کرام،تابعین عظام اور محدثین اعلام میں کتنے ہیں، جنھیں انھی درجہ ومرتبہ کے حاملین نے معاذ اللہ کافر وزندیق کہا ہے؟ ایسی بات وہی کہہ سکتا ہے، جس نے منصور حلاج کی سیرت وسوانح لکھی اور اس کا دفاع کیا ہے ۔یہ صحابہ وتابعین اور تبع تابعین میں اللہ تعالیٰ کی قطعاً ’’سنت‘‘ نہیں۔جو سرتاج اولیاء تھے۔ یہ بھی کس قدر ستم ظریفی ہے کہ مولانا عبد الحی رحمۃ اللہ علیہ کی الفوائد البھیۃ سے علامہ سمعانی رحمۃ اللہ علیہ کا ادھورا کلام تو مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کر دیا، مگر اس کے بعد حدیث کے حوالے سے جو امام سمعانی رحمۃ اللہ علیہ کا تبصرہ ہے اس سے آنکھیں موند لی ہیں۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: ((کان الناس تکلموا فیہ ولیس فی الحدیث شيء)) [1] ’’کہ لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے اور وہ حدیث میں کچھ بھی نہیں۔‘‘ اسحاق بن اسماعیل طالقانی فرماتے ہیں: ہم امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے تھے، کسی نے کہا: بے شک سنت قحط کا شکار ہے تو انھوں نے فرمایا: کیوں نہ قحط میں ہو، حسن لؤلؤی اور حماد بن ابی حنیفہ جیسے تو قاضی بنے بیٹھے ہیں۔[2] علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: وہ روایتِ حدیث میں سخت ضعیف ہے بہت سے علماء نے اسے کذاب کہا ہے اور وہ بڑا فقیہ تھا۔[3] علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ متروک ہے۔[4] علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ
Flag Counter