Maktaba Wahhabi

336 - 413
الجمیع[1] ’’تمام محدثین سے اس کی تضعیف ہے۔‘‘ ثانیاً: امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ھو یروی المناکیر[2] ’’وہ منکر روایات روایت کرتا ہے۔‘‘ ضعیف کی روایات منکر ہوں تو کیا حکم ہے؟ 2. امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے اگر یہ فرمایا ہے کہ ’مع ضعفہ یکتب حدیثہ‘ ’’کہ ضعیف ہونے کے باوجود اس کی احادیث لکھی جائیں۔‘‘ تو اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کی تمام احادیث غیر محفوظ ہیں۔ ’کلھا غیر محفوظۃ‘ بلکہ ان غیر محفوظ روایات میں ایک یہی حدیث وتر بھی انھوں نے الکامل[3] میں ذکر کی ہے۔ لہٰذا جب اس روایت کے بارے میں غیر محفوظ ہونے کا فیصلہ انھوں نے دیا ہے تو اس کے بعد ’یکتب حدیثہ‘ کے الفاظ کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے کہ کم سے کم یہ روایت اس قابل نہیں ہے۔ پھر ان کا یہ قول امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے معارض ہے کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے اور کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس کی حدیث روایت کرے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ’لیس بشیء‘ کہنا بھی اس کا مؤید ہے۔ امام بخاری، ابوحاتم ،ابن نمیر اور ابونعیم رحمۃ اللہ علیہم کی سخت جرح بھی آپ کے سامنے ہے۔ ایسی سخت جرح کی بنا پر ہی حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ساقط‘‘ اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متروک کہا ہے،مگر اس کی روایت مولانا صاحب کے موقف کی مؤید ہے اس لیے فرمایا گیا کہ ’’وہ بالاتفاق متروک نہیں استشہاد کے قابل ہے۔‘‘ کیا راوی کے ’’متروک‘‘ ہونے کے لیے بالاتفاق متروک ہونا بھی شرط ہے؟اگر بالاتفاق متروک نہیں توکیا وہ بالاتفاق ضعیف بھی نہیں؟ بلکہ اس کی ’’عکرمہ عن ابن عباس‘‘ کی سند سے روایات کے بارے میں امام ابونعیم رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت کے بعد بھی اس سند کی روایت قابلِ استشہاد ہو سکتی ہے؟ یہ روایت بھی اسی سند سے ہے اور امام ابنِ عدی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے غیر محفوظ کہا ہے اس لیے یہ روایت بالکل منکر اور ضعیف اور ناقابل استشہاد ہے۔
Flag Counter