Maktaba Wahhabi

329 - 413
’’اس سے شعبہ اور سلیمان نے علی وجہ التعجب روایت کی وہ سخت ضعیف الحدیث ہے۔‘‘ افسوس ہے کہ تہذیب میں العرزمی سے روایت کرنے والے امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اورثوری رحمۃ اللہ علیہ تو نظر آگئے،مگر ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت نظر سے اوجھل ہی رہی۔ 6. امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا استاد ہونے پر مولانا صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا، حالانکہ یہ بھی ان کا محض مقلدانہ حسن ظن ہے جو سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے۔ جابر جعفی سے وہ روایت بھی لیتے ہیں اور اسے کذاب بھی قرار دیتے ہیں، جیسا کہ قبل ازیں ہم عرض کر آئے ہیں۔ جابر جعفی ہی کیا وہ تو محمد بن سائب کلبی ،نصربن طریف، ابان بن ابی عیاش وغیرہ جیسے راویوں سے بھی روایت لیتے ہیں جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ 7. بحوالہ نصب الرایہ یہ بھی فرمایاگیا کہ العرزمی کا متابع بھی ہے اور وہ حجاج بن ارطاۃ ہے۔ عرض ہے الحجاج جب عمروبن شعیب سے معنعن روایت کرتے ہیں تو تدلیس کرتے ہیں اور درمیان میں اسی العرزمی متروک کا واسطہ چھوڑ جاتے ہیں۔ جس کا اعتراف مولانا عثمانی نے[1] کیا ہے جیسا کہ ابھی اوپر ہم نقل کر آئے ہیں۔ اس لیے یہ متابعت ظلمات بعضھا فوق بعض کے مصداق ہے۔ 8. آخری بات متابعت کے بعد یہ فرمائی گئی کہ حجاج حسن الحدیث ہے۔ اولاً: تو افسوس ہے کہ یہ متابعت انھوں نے نصب الرایہ سے نقل کی،مگر نصب الرایہ سے اس پر علامہ زیلعی کا تبصرہ نظر انداز کر دیا۔ انھوں نے متابع ذکر کر کے ساتھ ہی فرمایا ہے: ’ والحجاج غیر ثقۃ‘ ’’اور حجاج ثقہ نہیں۔‘‘ ثانیاً: یہ روایت معنعن ہے اور حجاج کی معنعن روایت کے بارے میں مولانا صاحب کا موقف آپ پڑھ آئے ہیں،مگر افسوس ان تمام حقائق کے برعکس یہ روایت حسن، العرزمی مختلف فیہ اور حجاج کی العرزمی سے تدلیس کے باوجود حسن الحدیث ۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون
Flag Counter