Maktaba Wahhabi

321 - 413
اسی موضوع کی ایک اور روایت بھی انھوں نے ذکر کی اور فرمایا : کہ ’فالحدیث حسن‘ ’’لہٰذاحدیث حسن‘‘ ہے۔[1] اسی طرح ایک روایت باب وجوب سجود السھو کے تحت شرح معانی الآثار سے بواسطہ جابر جعفی نقل کی اور اس کے متعلق بھی فرمایا: ’فالحدیث حسن‘ ’’پس حدیث حسن ہے۔‘‘[2] اسی طرح دیگر مقامات پر [3] بھی جابر کی روایت کو حسن کہا۔ اور اسے ’’مختلف فیہ‘‘ راوی کے اپنے اصول کے مطابق بھی حسن درجہ کا راوی قرار دیا۔ اب یہ کون سا انصاف ہے کہ اول الذکر مقام میں تو اس کی حدیث صرف فضائلِ اعمال کے لیے ہو اور وہ قابلِ استدلال نہ ہو اور دیگر مقامات پر اس کی حدیث حسن قرار پائے اور احکام میں حجت ٹھہرے۔ یہاں یہ بات بجائے خود باعثِ عبرت ہے کہ مولانا عثمانی مرحوم تو امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی جابر جعفی سے روایت کو جابر کی توثیق کے لیے بیان کرتے ہیں،جبکہ خود انھوں نے ہی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے روایات لی جائیں تو انھوں نے فرمایا: ((اکتب عنہ فإنہ ثقۃ ماخلا أحادیث أبی إسحاق عن الحارث وحدیث جابر الجعفی)) [4] ’’سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے احادیث لکھو وہ ثقہ ہیں سوائے ان کے جو وہ ابو اسحاق عن الحارث اور جابر جعفی سے روایت کرتے ہیں۔‘‘ لیجئے جناب!امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو امام سفیان رحمۃ اللہ علیہ کی جابر سے روایت ناقابلِ تحریر قرار دیتے ہیں،مگر ان کے مقلدین امام سفیان رحمۃ اللہ علیہ کی جابر سے روایت کو جابر کی قبولیت کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ فاعتبروا یاأولی الأبصار
Flag Counter