Maktaba Wahhabi

313 - 413
جس نے فاطمہ بنت قیس کو اپنے پاس عدت گزارنے کے لیے کہا تھا۔ اس کی تعیین میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الاصابہ سے معلوم ہوتا ہے۔صحابہ کی جہالت اگرچہ مضرنہیں لیکن یہ بڑی بعید بات ہے، بالخصوص نماز جنازہ کا معاملہ جو عورتوں کی بجائے مردوں پر زیادہ واضح ہوتا ہے اجلہ صحابہ پر تو مخفی ہو ،مگر یہ مجہولہ اسے جانتی ہو، یہ بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ غور فرمایا آپ نے کہ ’’ ام شریک‘‘ کو صحابیہ تسلیم کرنے کے باوجود اسے مجہولہ قرار دیتے ہوئے اس کی روایت سے جان چھڑانے کاکیسا عجیب بہانہ تراشا گیا ہے۔ وہ اسے ’’مجہولہ‘‘ نہ بھی کہتے تب بھی محض رائے کی بنیاد پر جو حیلہ سازی انھوں نے کی وہ تو کسی معروف صحابیہ کے بارے میں بھی یہی ہوتی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت کے جواب میں انھوں نے یہی کچھ فرمایا ہے جس کی تفصیل ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی۔ ’الاصابہ‘ کے محولہ صفحہ سے انھوں نے ام شریک رضی اللہ عنہا کی تعیین میں اختلاف تو ذکر کر دیا،مگر یہ کون سی دیانت وشرافت ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت کو نظر انداز کر دیا کہ یہ ام شریک کون سی ہیں ۔ ان کے الفاظ ہیں: ((ولھاذکر فی حدیث صحیح عند مسلم من روایۃ فاطمۃ بنت قیس فی قصۃ الجساسۃ فی حدیث تمیم الداری، قال فیہ: وأم شریک امرأۃ غنیۃ من الأنصار عظیمۃ النفقۃ فی سبیل اللّٰه عزوجل ینزل علیھا الضیفان، ولھا حدیث آخر أخرجہ ابن ماجہ من طریق شہر بن حوشب حدثتني أم شریک الأنصاریۃ قالت))الخ ’’ام شریک رضی اللہ عنہا انصاریہ نجاریہ کا ذکر مسلم کی صحیح حدیث میں ہے ،جو فاطمۃ بنت قیس کی روایت میں حضرت تمیم داری کے واقعہ جسا سہ کے بارے میں ہے اس میں ہے کہ ام شریک رضی اللہ عنہا انصار کی غنی عورت تھیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہت سا مال خرچ
Flag Counter