Maktaba Wahhabi

311 - 413
اس کی کوئی پہچان نہیں۔‘‘ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں کہا: ابن سیدان تابعی کبیر ہے،مگر اس کی عدالت معروف نہیں۔ علامہ نووی نے بھی الخلاصہ میں کہا ہے کہ وہ محدثین کے نزدیک مجہول ہے۔ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ثقات میں ذکر کیا تو حضرت عثمانی اس کے جواب میں فرماتے ہیں: ((ذکر ابن حبان إیاہ فی الثقات لایرفع الجہالۃ لأن لابن حبان فی توثیق المجاھیل اصطلاحاً خاصاً ذکرناہ غیر مرۃ)) ’’ابنِ حبان کا اسے ’’الثقات‘‘میں ذکر کرنا اس کی جہالت کو ختم نہیں کرتا کیونکہ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی مجاھیل کو ثقہ کہنے میں خاص اصطلاح ہے جیسا کہ ہم نے کئی بار ذکر کیا ہے۔‘‘ یہ ساری تفصیل اعلاء السنن ،باب إن وقت الجمعۃ بعد الزوال [1] میں دیکھی جاسکتی ہے۔ غور فرمائیے عبد اللہ بن سیدان کا تابعی کبیر ہونا وہ خود نقل کرتے ہیں،مگر اس کے باوجود انھیں اس کے مجہول ہونے پر اصرار ہے۔ اصول کہاں گیا؟ یہ مجہول اس لیے کہ اس کا بیان ان کے موقف کے خلاف ہے۔ یہاں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں ’احتج بہ‘ کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے استدلال کیا ہے۔ انھیں کااصول ہے مجتہد جس سے استدلال کرتا ہے وہ حدیث صحیح ہوتی ہے۔ مگر یہ روایت صحیح نہیں کہ اس کا راوی مجہول ہے۔ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق پر جابجا اعتماد کیا گیا، مگر یہاں ان کی توثیق بھی معتبر نہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ اسی طرح پہلے گزرا ہے کہ ایاس بن ابی رملہ کو بھی مولانا موصوف نے مجہول کہا ہے۔[2] حالانکہ اس کی حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ، ابن خزیمہ اورابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے صحیح
Flag Counter