Maktaba Wahhabi

309 - 413
اسی طرح حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں جب وہ عشاء کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھتے پھر محلہ میں جا کر اہلِ محلہ کو نماز پڑھاتے ۔ اس واقعہ میں جو فقہی اختلاف ہے اس سے قطع نظر ہمیں یہاں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ عبدالرزاق، شافعی، طحاوی اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم نے ’ابن جریج عن عمرو بن دینار عن جابر‘ کی روایت میں ان الفاظ کا ذکر کیا ہے۔ ’ ھی لہ تطوع ولھم فریضۃ‘ کہ محلہ میں پڑھائی ہوئی نماز حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی نفل ہوتی اور اہلِ محلہ کی فرض۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس زیادت کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے: ((فھی زیادۃ من ثقۃ حافظ ولیست منافیۃ لروایۃ من ھو أحفظ منہ ولا اکثر عدداً فلا معنی للتوقف فی الحکم بصحتھا)) ’’یہ زیادت ثقہ حافظ (امام ابن جریج) سے ہے، جو اس سے احفظ واکثر کی روایت کے منافی نہیں لہٰذا اس کو صحیح کہنے میں توقف بے معنی ہے۔‘‘ مولانا عثمانی صاحب کو اپنے بیان کیے ہوئے اصول کے مطابق اس زیادت کو قبول کرنا چاہیے کہ اسے ابن جریج جیسے ثقہ امام اور مکہ کے فقیہ بیان کرتے ہیں، مگرمولانا کے نزدیک یہ غیر مقبول ہے، کیونکہ ابن جریج کے علاوہ عمرو بن دینار کے بہت سے شاگردوں نے اسے بیان نہیں کیا ۔ الخ [1] صدوق اور ثقہ کی زیادت کی قبولیت کا اصول کہاں گیا؟ ہم انھی چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔ ’ولدینا مزید‘ البتہ اس بات کا اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ زیادت ثقہ کا جو اصول انھوں نے قواعد علوم الحدیث میں اختیار کیا مفید مطلب مقام پر اس کا سہارا لیالیکن جب یہی اصول خلاف مسلک نظر آیا تو اسے ٹھکرا دیا۔ شیخ ابو غدہ نے قواعد کے حاشیہ میں اس اصول کی تردید کی ہے اور بتلایا ہے محدثین ایسے موقعہ پر قرائن کے تناظر میں فیصلہ فرماتے ہیں۔ مطلقاً زیادت ثقہ کی قبولیت کا اصول درست
Flag Counter