Maktaba Wahhabi

305 - 413
رکھیں،امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے معروف قاعدہ کی تردید اور اس سے استدلال کی جو دلچسپ داستان آپ پڑھ آئے ہیں، یہاں بھی آپ حیران ہونگے کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے اسی ضابطہ سے بوقت ضرورت استدلال ہوتا ہے اور راوی کی توثیق کے تناظر میں اسے پیش کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ابواب الامامہ میں ’معاویہ بن قرۃ عن ابیہ‘ کی ایک حدیث پر بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’اس کے راوی ہارون بن مسلم البقری کو امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے مجہول کہا ہے اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔ اور اس سے روایت کرنے والے مسلم بن قتیبہ، ابو داود طیالسی اور عمر بن سنان رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔ لہٰذا امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ کا مجہول کہنا اس سے مراد مجہول الحال ہے مجہول العین نہیں۔ اور جہالتِ حال بھی امام حاکم، امام ابن خزیمہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہم کی تصحیح سے زائل ہو جاتی ہے۔ ((وعند بعض المحدثین ترتفع جہالۃ الحال أیضاً بروایۃ الاثنیں ولولم یوثق بشرط عدم تضعیف أحد إیاہ ففی التعلیق الحسن قال السخاوی فی فتح المغیث: قال الدارقطنی: من روی عنہ ثقتان فقد ارتفعت جہالتہ، وثبتت عدالتہ)) [1] ’’اور بعض محدثین کے نزدیک راوی کی جہالت حال بھی اس سے دو راویوں کے روایت کرنے سے رفع ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی توثیق نہ ہو بشرطیکہ اسے کسی نے ضعیف نہ کہا ہو۔ چنانچہ التعلیق الحسن میں ہے کہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح المغیث میں کہا ہے کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جس سے دو راوی روایت کریں تو اس سے جہالت ختم ہو جاتی ہے اور اس کی عدالت ثابت ہو جاتی ہے۔‘‘ قارئین کرام! یہاں جوامور غور طلب ہیں ان سے قطع نظر یہ غور فرمائیے کہ علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان کیاہوا امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف وہی نہیں جس کی تردید مولانا
Flag Counter