Maktaba Wahhabi

285 - 413
مدلسین کا یہی حکم ہے؟ کہ ان تمام کی روایات میں تدلیس مضر نہیں اور ان کی معنعن روایت حسن درجہ کی ہے۔ تدلیس کے بارے میں دیگر اہلِ علم اور احناف میں کیا اختلاف ہے، ان شاء اللہ یہ ہم آئندہ کسی موقع پر ذکر کریں گے۔ہم یہاں پہلے خود حضرت مولانا صاحب کی عبارت قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مولانا صاحب نے اپنے ہی پیش رو کے رد میں جس اصول کا سہارا لیاہے کیا اس پر بھان متی کے کنبہ جوڑنے کی مثال صادق نہیں آتی؟ اور کیا یہ پینترے اور اصول مسلکی دفاع کا شاخسانہ نہیں؟ چنانچہ خود انھوں نے کتاب الغسل ، باب الغسل من التقاء الختانین کے تحت رقم فرمایا ہے: ((وفی نخبۃ الفکر ونقل أبوبکر الرازی من الحنفیۃ وأبو الولید الباجی من المالکیۃ أن الراوی إذا کان یرسل عن الثقات وغیرھم لا یقبل مرسلہ اتفاقاً ،قلت: لاشک أن الحجاج بن أرطاۃ ممن لا یحتج بہ إلا إذا صرح بالتحدیث والاخبار، لکن اعتمادنافی ھذا الموضع علی قاعدۃ السیوطی المذکورۃ فی المتن)) [1] ’’حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کی نخبۃ الفکر میں ہے کہ حنفیوں میں ابوبکر رازی رحمۃ اللہ علیہ اور مالکیوں میں ابو الولید باجی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ راوی جب ثقہ اور غیر ثقہ سے ارسال کرے تو اس کی مرسل بالاتفاق قبول نہیں۔ میں(یعنی عثمانی صاحب) کہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں حجاج بن أرطاۃ ان راویوں میں سے ہے جن کی حدیث سماع کی صراحت کے بغیر قابلِ استدلال نہیں، کیونکہ وہ چوتھے طبقہ کا مدلس ہے لیکن یہاں ہمارا اعتماد متن میں علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کیے ہوئے قاعدہ پر ہے۔‘‘ غور فرمایا آپ نے! کیا یہاں مولانا عثمانی نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ حجاج بن أرطاۃ کے
Flag Counter