Maktaba Wahhabi

277 - 413
2۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے الولید سے احتجاج کیا ہے۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا ان کے مقابلے میں کلام قطعا مقبول نہیں۔یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے المدخل[1] میں یہی بات ولید کے بارے میں کہی ہے اور اس کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ یحییٰ بن سعید اس سے روایت نہیں لیتے تھے،حالانکہ ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ ’فلما کان قبل موتہ بقلیل حدثنا عنہ[2] کہ موت سے کچھ پہلے انھوں نے ولید کی روایات بیان کی ہیں۔ لہٰذا امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی بنیاد بجائے خود مخدوش ہے تو ان کا قول کیونکر قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔ 3۔ ان دونوں کے علاوہ امام احمد ،ابوداود اور ابوزرعہ رحمۃ اللہ علیہم نے اسے لیس بہ بأس، امام ابن معین، ابن سعد اور العجلی رحمۃ اللہ علیہم نے ثقہ، امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے صالح الحدیث۔امام البزار رحمۃ اللہ علیہ نے ’احتملوا حدیثہ‘ کہا ہے۔ کیا اتنے ائمہ کرام کی توثیق کے باوجود الولید مجہول ہو سکتا ہے؟ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس کی حدیث کو حسن قرار دیتے ہیں۔[3] امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حدیث پر سکوت کیا ہے اور حضرت موصوف کے ہاں اصول یہ ہے کہ ان کا سکوت کم سے کم روایت کے حسن ہونے کی دلیل ہے۔ 4۔ ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے قول میں تعارض ہے حنفی اصول کا تقاضا ہے کہ اسے قابلِ اعتناء ہی نہ سمجھا جائے۔ توثیق کا قول اکثر ائمہ کے موافق ہے لہٰذا وہی راجح ہے دوسرا مرجوح ومردود، توثیق کے مقابلے میں کیا ایسی جرح سے ہی راوی’’مختلف فیہ‘‘ قرار پاتا ہے؟ 5۔ یہ کہنا کہ ابن لھیعہ کی حالت اس سے بہتر ہے ۔ اس دعویٰ کی حقیقت حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے تقابل میں کر لیجئے۔ چنانچہ الولید بن عبد اللہ بن جمیع کے بارے میں فرماتے ہیں: ((صدوق یھم)) [4]
Flag Counter