Maktaba Wahhabi

273 - 413
اس طرح ایک اور حدیث[1] کے بارے میں بھی فرمایا ہے: ’’کہ صالح کی روایات میں ایسی غریب روایات ہیں جن میں کوئی اس کا متابع نہیں البتہ وہ نیک آدمی ہے۔‘‘ یہاں تو اس کی صالحیت کا ذکر کرنے کے باوجود اس کی روایت کو غریب قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی روایات کو غریب کہہ کر ان کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ اہلِ علم اس حقیقت سے ناواقف تو نہیں،مگر مولانا عثمانی مرحوم اپنی عمومی روش کے مطابق اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ رہی یہ بات کہ ’’امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت مرسل بھی بیان کی ہے اور فرمایا ہے : کہ یہ میرے نزدیک اصح ہے۔ محدث بے اصل اور موضوع کو’’اصح‘‘ سے تعبیر نہیں کرتا زیادہ سے زیادہ وہ ضعیف ہے بلکہ تعدد طرق اور راویوں کے مختلف فیہ ہونے سے یہ حسن ہے۔‘‘ بلاشبہ ’’اصح‘‘ کا اطلاق موضوع پر نہیں ہوتا،مگر اس کا اطلاق ہمیشہ دوسرے کے مقابلے میں صحیح یا حسن پر بھی نہیں ہوتا،بلکہ دوسرے کے مقابلے میں کم ضعف بھی مراد ہوتا ہے۔ اور اس حقیقت کا اعتراف مولانا عثمانی نے قواعد علوم الحدیث[2] میں بھی کیا ہے۔ یہاں بھی دیکھئے کہ مرسل روایت بھی صالح المری ہی سے ہے۔ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے العلل مع التحفہ[3] میں مرسل کو’’اکثر اہلِ الحدیث‘‘ کے نزدیک ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ اس لیے جب یہ مرسل بھی ضعیف سند ہی سے مروی ہے تو اسے ’’اصح‘‘ قرار دینا صرف مرفوع کے مقابلے میں راجح مرجوح کا معاملہ ہے یوں تو نہیں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے قبولیت کے درجہ سے نواز رہے ہیں۔ ہماری اس وضاحت سے ان کے اس اصول کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے کہ ’’مختلف فیہ‘‘ راوی کی روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے۔
Flag Counter