Maktaba Wahhabi

272 - 413
ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اسلوب کے مطابق حدیث کے بارے میں کبھی حسن صحیح، کبھی حسن صحیح غریب، کبھی صحیح غریب ،کبھی حسن غریب اور کبھی صرف غریب کہتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ انھوں نے صرف ’’غریب‘‘ کہا ہے ’’حسن غریب‘‘ نہیں کہا ۔ دکتور نور الدین عتر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے : کہ ’’غریب‘‘صحیح، حسن اور ضعیف ہوتی ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایسا اسلوب اختیار کرتے ہیں ،جسے پڑھنے والا پہچان جاتا ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی پوزیشن کیسی ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کبھی کہتے ہیں:’ھذا حدیث غریب‘ کبھی کہتے ہیں: ’غریب لانعرفہ إلا من ھذا الوجہ‘ اور جب غریب حدیث صحیح یا حسن ہو تو اس کے ساتھ غرابت کا ذکر کرتے ہیں۔[1] امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں بھی فرمایا ہے: ’غریب لانعرنہ عن ابن عباس الا من ھذا الوجہ‘ کہ یہ غریب ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اسی سند سے ہم اسے پہچانتے ہیں۔[2] بلکہ ترمذی کے بعض نسخوں میں اس کے ساتھ ’وإسنادہ لیس بالقوی‘ بھی ہے۔ جیسا کہ دارالغرب الاسلامی کے نسخہ میں ہے جو شیخ بشار عواد کی تحقیق سے شائع ہوا ہے،اسی طرح المکتبۃ الاسلامیۃ اور بیت الافکار الدولیۃ کے نسخوں میں بھی یہ عبارت موجود ہے، لہٰذا امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے غریب ہی نہیں کہا، بلکہ اس کی سند پر کلام بھی کیا ہے۔صالح المری کی ایک اور روایت کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((غریب لانعرفہ إلا من ھذا الوجہ من حدیث صالح المری لہ غرائب یتفرد بھا)) [3] ’’یہ غریب ہے ہم اسے صرف صالح المری کی سند سے پہچانتے ہیں اور وہ بہت سی غریب حدیثوں میں متفرد ہے۔‘‘
Flag Counter