Maktaba Wahhabi

27 - 413
تالیف کے دوران میں تو علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ طالب علم تھے، کیونکہ وہ ۱۳۱۲ھ میں تحصیلِ علوم سے فارغ ہوئے تھے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ آثار السنن کی تالیف کے بعد اس کے اجزاء علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجتے ہوں اور وہ انھیں کچھ رائے اور مشورہ دیتے ہوں گے۔[1] یہاں یہ دلچسپ بات بھی دیکھئے کہ مولانا عبد الرشید کی اس حقیقت بیانی پر علامہ کشمیری کے تلمیذِ رشید مولانا محمد انوری ’’لائل پوری‘‘ نے تأسف کا اظہار کیا اور اپنے ایک مکتوب میں لکھا کہ ’’آپ نے تو اپنے والد بزرگوار قدس سرہ کے مداح کے متعلق طنزیہ الفاظ استعمال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔لا تسبوا الأموات۔اذکروامحاسن موتاکم کو بھی خیال فرمایا ہوتا۔ آپ نے حضرت شاہ صاحب کشمیری پر بھر پورلے دے فرمائی، جس سے مخالفین کے خوش ہونے کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘‘ یہ خط دو صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کا جواب مولانا عبد الرشید نے چھ صفحات میں دیا اور دیگر تو ضیحات کے ساتھ ساتھ اپنے موقف کو واضح کیا کہ آثارالسنن کی تألیف کے دوران میں علامہ کشمیری طالب علم تھے۔ البتہ جب وہ دہلی میں مدرس ہوئے تو وہاں ان کے پاس ۱۳۱۳ھ کے بعد اپنی تحقیقات دکھانے کے لیے اور رائے لینے کے لیے مسودہ بھیجتے ہوں گے۔ یہ خط اور جوابِ خط مولانا عبد الرشید کے قلم سے القول الحسن کے ایک نسخہ میں ہمیں ملا ہے۔ نیل الفرقدین کی عبارت سے جو غلط فہمی پیدا ہوتی تھی اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے ہم نے اس کا ذکر مناسب سمجھا ہے۔ اسی مقصد کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی نے’’احیاء السنن‘‘ لکھی، مگر طباعت سے پہلے ہی اس کا مسودہ ضائع ہو گیا۔ غالباً مولانا تھانوی کو بھی آثارالسنن ہی سے اس کی ضرورت کا احساس ہوا۔ مولانا عبد الرشید فوقانی کے جس خط کا اوپر ذکر ہوا ہے اسی میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ’’مولانا محمد سہول مرحوم بھاگل پوری پرنسپل مدرسہ شمس الھدیٰ پٹنہ عظیم آبادی نے بندہ ہیچمداں سے بالمشافہ فرمایا ہے کہ ہم لوگ دیوبند میں شیخ الھند مولانا
Flag Counter