Maktaba Wahhabi

265 - 413
کہا ہے: کہ وہ کذاب تو نہیں، ضعیف العقل تھا۔[1] لہٰذا ایسے ضعیف کا قول امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سخت جرح کی ہے کہ وہ ’لیس بثقۃ‘ ہے۔ ابن یونس رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کہا: ’تکلموا فیہ‘ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ضعیف ‘‘ کہا ہے اور ابن قطان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ مصر اس پر کلام کرتے ہیں۔[2] بیان الوھم والایھام[3] میں ایک حدیث ذکر کر کے انھوں نے کہا ہی: کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں سوائے مقدام بن داود کے ،اہلِ مصر اس پر کلام کرتے ہیں اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔علامہ برہان الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث[4] میں ذکر کر کے اس کو وضاعین میں شمار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانا کہ ’’آفت اسی کی طرف سے ہے ‘‘ میں احتمال ہے کہ وہی اس کو وضع کرنے والا ہے۔ اسی لیے مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا’والآ فۃ منہ‘ کہنا مناسب نہیں، بجاے خود غیر مناسب ہے۔علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے الضعفاء[5] حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے دیوان الضعفاء[6] اور المغنی[7] میں ذکر کر کے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[8] رہی بات ’’خالد بن نزار‘‘ سے اس کے سماع کی اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانا کہ شاید اس نے صغرِ سنی میں سماع کیا ہے، تو یہ بھی دیکھئے کہ وہ’’اسد بن موسی‘‘ سے بھی روایت کرتا ہے جیسا کہ میزان اور لسان المیزان میں اور معجم الأوسط میں ہے۔ خالد بن نزار ۲۲۲ھ میں فوت ہوئے تھے۔ [9] اور ان کی وفات کے وقت مقدام بن داود ۴یا ۵ سال کے تھے، مگر اسد بن موسی تو ۲۱۲ھ میں فوت ہوئے ہیں [10] گویا خالدبن نزارکی وفات سے 10سال پہلے اسد بن موسی انتقال کر گئے تھے۔ اور مقدام بن داود اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ تو
Flag Counter