Maktaba Wahhabi

264 - 413
یتکلم علیہ الحاکم وھو موضوع علی سند الصحیحین ومقدام متکلم فیہ، والآفۃ منہ)) [1] مگر اس روایت کے بارے میں مولانا عثمانی نے فرمایاہے : ’’میرے نزدیک یہ حدیث حسن ہے یاضعیف ہے موضوع نہیں فضائلِ اعمال میں یہ کافی ہے۔‘‘ اور حاشیہ میں پہلے صالح کا دفاع کیا پھر مقدام کے بارے میں فرمایا: ’فالرجل مختلف فیہ، وحدیث مثلہ حسن‘ ’’یہ مختلف فیہ ہے اس جیسے راوی کی حدیث حسن ہوتی ہے۔‘‘ ملخصاً [2] مقدام بن داود کے بارے میں انھوں نے لسان کے حوالے سے یہ بھی نقل کیا کہ’’مسلمۃ بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ نے ’لا بأس بروایتہ‘ کہا ہے۔ المسعودی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ اس کا شمار بڑے فقہاء اور اصحابِ مالک میں ہوتا ہے۔ ابو عمر کندی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ خالد بن نزار رحمۃ اللہ علیہ سے روایت میں محمود نہیں کیونکہ جب خالد فوت ہوئے تو اس کی عمر ۴یا ۵سال تھی۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے : یہ کمزور جرح ہے۔ شاید اس نے صغر سنی میں سماع کیا ہو‘‘ بلکہ حاشیہ میں فرمایاگیا ہے:شاید مقدام اپنا سنِ ولادت بھول گیا ہو، یا جس نے مولد کی خبر دی اس سے غلطی ہو گئی ہو یا خالد بن نزار کی وفات لکھنے میں کاتب سے غلطی ہو گئی ہو۔‘‘ ایضاً اولاً: گزار ش ہے کہ مقدام کی توثیق میں مسلمہ بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے علاوہ کوئی کلمۂ توثیق مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر نہیں کیا۔ مقدام کا فقہاء اور اصحابِ مالک میں ہونا اس کی توثیق کو قطعاً مستلزم نہیں۔ اصبغ بن خلیل بھی مالکی فقیہ تھا۔ کہا گیا ہے کہ ’دارت علیہ الفتیا‘ اس پر فتوی کا دار ومدار تھا۔‘‘ پچاس سال تک عہدہ قضاء پر براجمان رہا۔ اسی ’’مفتی اعظم‘‘ کے بارے میں ہے کہ وہ کذاب اور وضاع تھا۔[3] مسلمۃ بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ گو مصنف ہے، مگر ضعیف ہے۔[4] ابو جعفر المالقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ’’فیہ نظر‘‘ قاضی ابن مفرج رحمۃ اللہ علیہ نے
Flag Counter