Maktaba Wahhabi

250 - 413
ضعیف ہے۔ لسان المیزان مولانا صاحب کے پیشِ نظر ہے اس میں امام ابو احمد الحاکم رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ انھوں نے بھی اسے’’لیس بالقوی‘‘ کہا ہے، مگر اس کا ذکر انھوں نے شاید مناسب نہیں سمجھا ۔امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے الکامل اور علامہ ابن الجوزی نے ضعفاء [1] میں اسے ذکر کر کے اس کے ضعیف ہونے کا اشارہ کیا ہے ،بلکہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ((یروی عن عمہ سعید بن عبد الجبار عن أبیہ عبد الجبار عن أبیہ وائل بن حجر بنسخۃ منکرۃ ، منھا أشیاء لھا أصول من حدیث رسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم ،ولیست من حدیث وائل بن حجر، ومنھا أشیاء من حدیث وائل مختصرۃجاء بھا علی التقصی وأفرط فیھا، ومنھا أشیاء موضوعۃ لیس من کلام رسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم لا یجوز الاحتجاج بہ)) [2] ’’محمد بن حجر اپنے چچا سعید بن عبد الجبار سے، وہ اپنے باپ عبد الجبار سے اور وہ اپنے باپ وائل بن حجر سے منکر احادیث پر مبنی نسخہ روایت کرتا ہے ۔ اس میں بعض اشیاء ایسی ہیں جن کے اصول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں، مگر وہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث نہیں، کچھ ایسی ہیں جو وائل کی مختصر احادیث ہیں جنھیں وہ آخری حد تک لے جاتااور ان میں اس سے افراط کرتاہے اور کچھ ایسی ہیں جو موضوع ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ، اس سے استدلال جائز نہیں۔‘‘ یہ روایت جس کا دفاع حضرت مولانا صاحب محض اپنے مقصد کے تحت کررہے ہیں اسی سند سے مسند بزار ،کشف الاستار [3] اور طبرانی[4] میں منقول ہے۔جس میں محمد بن حجر کے علاوہ اس کا چچا سعید بن عبد الجبار بھی ضعیف ہے۔[5] عبدالجبار نے یہ روایت اپنی والدہ ام
Flag Counter