Maktaba Wahhabi

242 - 413
کی صریح عبارت سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی نوعیت کی ایک مثال اور دیکھئے کہ حضرت موصوف نے باب کفایۃ مسح ربع الرأس کے تحت مسند امام احمد اور ترمذی کی ایک روایت پر علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ نقد کیا ہے کہ ’’اس کی سند میں ابو شریح ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا نام کیا تھا ؟تو انھوں نے فرمایا: میں اسے نہیں پہچانتا اور نہ اس کا نام معلوم ہے۔ اس کی سند میں ابو مسلم مولی زید بن صوحان بھی مجہول ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: کہ نہ میں اس کا نام جانتا ہوں اور نہ اِس حدیث کے علاوہ اُس کی کوئی اور حدیث جانتا ہوں۔‘‘اس کے جواب میں انھوں نے فرمایا ہے: ’’ابو شریح سے قتادۃ اور محمد بن زید العبدی روایت کرتے ہیں لہٰذا اس سے جہالتِ عین مرتفع ہو گئی۔ اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اور ابو مسلم کو بھی ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے ثقات میں ذکر کیا ہے جیسا کہ تہذیب میں ہے اور ان دونوں کے بارے میں تقریب میں’’مقبول‘‘ کہا گیا ہے اور جو مجہول ہوتا ہے اسے ثقہ اور قبول (مقبول) نہیں کہا جاتا ‘‘[1] یہاں بھی ان دونوں راویوں کے بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے قول’’مقبول‘‘ کو مجہول کے منافی قرار دیتے ہوئے ان کی روایت کو مقبول قرار دیا گیا ہے۔ ہم عرض کر آئے ہیں کہ تقریب میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا ’’مقبول‘‘ کہنا خود انھی کی وضاحت کے مطابق تب قابلِ قبول ہے جب اس راوی کی متابعت ثابت ہو،مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ رہا امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کا ان کو الثقات میں ذکر کرنا تو یہ ان کی دیگر محدثین کے برعکس، اپنی اصطلاح کے مطابق ہے جس کی وضاحت ان شاء اللہ آئندہ آئے گی۔
Flag Counter