Maktaba Wahhabi

241 - 413
حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب میں اسے مقبول کہا ہے۔[1] علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ پر یہ اعتراض کیا گیا کہ فاتحہ خلف الامام کی حدیث میں نافع بن محمود کے بارے میں تو انھوں نے کہا ہے: کہ جس سے دوراوی روایت کریں، وہ مستور، مجہول الحال ہے، اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔[2] لیکن ابو عائشہ سے استدلال درست اور اس کی سند بھی حسن ہے۔ آخر کیوں؟اعتراض معقول تھا۔ لیکن مولانا عثمانی مرحوم نے اس کے جواب میں فرمایا ہے: ’’کہ علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں دو راویوں کی روایت سے ارتفاعِ جہالت سے مراد جہالتِ عین کا رفع ہونا ہے۔ ہمیں جہالت حال کے رفع کی ضرورت نہیں کیونکہ مستور ہمارے نزدیک مقبول ہے۔ جہالتِ حال کے ارتفاع کی شرط ان کے ہاں ہے جن کے نزدیک مستور کی روایت مقبول نہیں جو بعض محدثین کا مذہب ہے۔ اور نافع کے بارے میں جو اعتراض ہے وہ الزاماً ۔اس دقیق نکتہ سے عدمِ واقفیت کی بنا پر معترض نے اعتراض کیا ہے۔‘‘[3] مگریہ عذر محض عذرلنگ ہے۔ علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ نے نافع پر اعتراض میں ’قلت فإذا کان مستوراً فلا یحتج بہ‘ کہہ کر اپنا فیصلہ دیا ہے۔ بلکہ مستور کی روایت کی عدمِ قبولیت کو مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ’مذہب بعض المحدثین‘ ’’بعض محدثین کا مذہب بتلاتے ہیں۔‘‘جبکہ علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ مذہب ’ردھا الجمہور‘ ’’جمہور کا ذکر کرتے ہیں۔‘‘اور تدریب الراوی سے بھی ’لا تقبل عند الجماہیر‘ نقل کرتے ہیں اور مجہول العدالت کی قبولیت کا قول ’’بعض‘‘ کا بتلاتے ہیں۔ علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ خیر القرون کے مدلسین کی معنعن روایت کو رد کرتے ہیں، حنفی موقف اس کے خلاف ہے۔ بلکہ آثار السنن کے بارے میں اعلاء السنن کے حاشیہ[4] میں ہے کہ یہ کتاب ’علی طریق المحدثین‘ ’’محدثین کے اسلوب پر ہے۔‘‘ اس لیے جن بھول بھلیوں کے سہارے مولانا عثمانی نے لیے ہیں عموماً وہ’’آثار السنن‘‘ کے موضوع سے ہی خارج ہیں۔ اور ان کایہ جواب ان کے اپنے زاویہ فکر کا عکاس ہے جس کا علامہ نیموی رحمۃ اللہ علیہ
Flag Counter