Maktaba Wahhabi

228 - 413
مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ روایت ابن ماجہ، دارقطنی اور بیہقی میں ہے، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ عمرو بن خالد متروک ہے، اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے :کہ عمرو کی متابعت عمر بن موسی بن وجیہ نے کی ہے،مگر ابن وجیہ متروک اور حدیث گھڑنے میں منسوب ہے، ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے العلل میں امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں اور عمرو بن خالد متروک الحدیث ہے۔ ابن قطان رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے: کہ امام اسحاق بن راھویہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ عمرو حدیثیں گھڑتا تھا۔ امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے : کہ وہ کذاب، غیر ثقۃ ، غیر مأمون ہے۔ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: کہ یہ اسی سند سے مروی ہے اور عمرو کی کسی نے متابعت نہیں کی اور ایک جماعت سے اس کا کذاب ہونا نقل کیا ہے۔[1] امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے اس کی اکثر روایات موضوع ہیں۔[2] علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ یہی روایت ذکر کرکے لکھتے ہیں: ((ھذا خبر لاتحل روایتہ إلاببیان سقوطہ، لأنہ انفرد بہ أبو خالد عمرو بن خالد الواسطی وھو مذکور بالکذب)) [3] ’’اس روایت کو اس کے ساقط ہونے کے اظہار کے بغیر بیان کرنا حلال نہیں کیونکہ اسے ابوخالد عمروبن خالد واسطی بیان کرنے میں منفرد ہے اور اس کا ذکر جھوٹ (بولنے) سے ہوا ہے۔‘‘ بلکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت معلقاً ذکر کر کے فرمایا ہے۔ ((ولو عرفت إسنادہ بالصحۃ قلت بہ وھو مما استخیراللّٰه فیہ‘))[4] ’’اگر میں اس کی صحیح سند جانتا تو اس پر فتوی دیتا ۔ اس کے بارے میں اللہ سے
Flag Counter