Maktaba Wahhabi

225 - 413
ہوئی تھی۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے انھی کی سند سے یہ روایت کتاب القراء ۃ [1] میں ذکر کی ہے۔ مگر اسے کیا کہیے کہ کتاب القراء ۃ کے اسی صفحہ میں یہی روایت ’ابن لھیعۃ ناعمرو بن شعیب‘ کی سند سے بھی موجود ہے۔ گویا ابن لہیعہ، مثنی کا متابع ہے۔ ابن لہیعۃ نے ’’نا‘‘ کہہ کر سماع کی صراحت بھی کی ہے اور مولانا صاحب کے نزدیک عبد اللہ بن لہیعۃ حسن الحدیث ہے۔[2] معلوم نہیں کہ یہ سند بلکہ ان کی پسندیدہ سند ان کی نگاہِ عمیق سے کیسے اوجھل رہ گئی۔ ثالثاً: حضرت نے مثنی کی روایت کا ضعف سنگین تر کرنے کے لیے یہ بھی فرمایا کہ وہ مختلط ہے اور عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے اختلاط کے بعد سماع کیا ہے۔حالانکہ المثنی ضعیف ہے اس کے ضعف کا سبب اختلاط نہیں کہ اس سے روایت لینے والوں کو دیکھا جائے کہ کس نے اختلاط سے پہلے سنا اور کس نے بعد میں، اگر یہ نکتہ درست ہے توپھرکیا انھیں کتاب القراء ۃ کے اسی صفحہ پر یہی روایت ’صدقۃ ناالمثنی‘ کی سند سے بھی نظر نہیں آئی؟ جب عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کی متابعت صدقہ سے ثابت ہے بلکہ ایک اور سند سے بواسطہ ’ابن لہیعۃ عن عمرو بن شعیب‘ بھی یہ روایت منقول ہے تو پھر عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ کی مثنی سے روایت کا بعد از اختلاط ذکر کرنا محض ضعف کا وزن بڑھانے کی بیکار حیلہ سازی نہیں؟ اسی طرح یہ بھی دیکھئے کہ حضرت مولانا صاحب نے اس روایت کے متصل بعد کنزالعمال ہی سے عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت مرفوعاً حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے: ’إذا کنت مع الإمام فاقرأبأم القرآن قبلہ وإذا سکت‘ اور اس کے بارے میں بھی نقل کیا ہے کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ہے۔[3] مگر اس کے بارے میں بھی انھوں نے فرمایا ہے کہ اس میں بھی المثنی بن الصباح ہے۔ لیکن یہ روایت اور اس پر یہ نقد محلِ نظر ہے کیونکہ ’إذا کنت مع الإمام‘ کے الفاظ دراصل پہلی مفصل حدیث کا ہی حصہ ہیں۔ جس کے الفاظ خود انھوں نے یوں نقل کیے ہیں۔
Flag Counter