Maktaba Wahhabi

224 - 413
فلیقرأبأم القرآن )) الحدیث۔ یہ روایت نقل کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی نقل کیا ہے۔’رواہ عبد الرزاق عن ابن عمر ، (ابن عمرو)مرفوعاً وحسن‘ کہ’’اسے عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کیا اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ہے۔‘‘[1] یہ روایت اسی طرح اس سے پہلے بھی اعلاء السنن[2] میں ذکر کی ہے اور وہاں بھی فرمایا ہے: ’وحسنہ السیوطی‘ کہ ’’علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ہے۔‘‘ کنز العمال کے حوالے سے دونوں جگہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تحسین کے باوجود مولانا صاحب نے اس پر نقد کیا ہے اور فرمایا ہے: اس کی سند میں المثنی بن الصباح ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے: ’لایسوی حدیثہ شیئا‘ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے متروک کہا ہے۔ امام یحییٰ القطان رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اس پر جرح نقل کی ہے۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ تقریب میں ہے کہ وہ ضعیف ہے اور آخر میں اختلاط ہو گیا تھا۔ اور تہذیب سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ نے المثنی سے اختلاط کے بعد سنا ہے۔ [3] مگر پہلی غور طلب بات تو یہ ہے کہ کنز العمال کے مقدمہ کا قاعدہ یہاں کیسے نظر سے اوجھل ہو گیا؟ یہاں تو علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے انھوں نے اس کا حسن ہونا نقل کیا ہے اور مقدمہ کنز العمال میں صراحت ہے کہ طیالسی، مسند احمد، عبدالرزاق، طبرانی۔۔۔۔۔۔بیہقی میں صحیح، حسن اور ضعیف احادیث ہیں جنھیں میں غالب طور پر بیان کر دیا کروں گا۔ ’فأبینہ غالباً‘ اسی قاعدہ کی بنا پر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن قرار دیا ۔ مگر حضرت صاحب کو اس سے اختلاف ہے کہ المثنی بن صباح راوی ضعیف ومختلط ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ جب علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے اس حکم سے اختلاف ہے تو ان کے سکوت سے حدیث کی تصحیح کے اصول میں کونسی معقولیت رہ جاتی ہے؟ جس کا سہارا انھوں نے جابجا لیا ہے۔ ثانیاً: عرض ہے کہ مولانا صاحب نے عبد الرزاق کی اس سند پر کلام کتاب القراء ۃ للبیہقی کے حوالے سے کیا ہے۔ اعلاء السنن کی ترتیب کے وقت عبدا لرزاق زیور طبع سے آراستہ نہیں
Flag Counter