Maktaba Wahhabi

213 - 413
راوی ’’الحکم بن عبد اللہ ‘‘ سخت ضعیف ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے الکامل[1] میں اسی کے ترجمہ میں اور ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء[2] اور حکیم ترمذی نے نوادر الاصول [3] میں اسے ذکر کیا ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اسے’لیس بثقۃ ولا مأمون، لیس بشیء، لایکتب حدیثہ‘ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور السعدی رحمۃ اللہ علیہ نے ’کذاب‘، امام ابو زرعہ، نسائی، یحییٰ بن حسان، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہم اور ایک جماعت نے ’متروک الحدیث‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے’ترکوہ‘ ابن المدینی رحمۃ اللہ علیہ نے ’لیس بشیء‘ کہا ہے۔ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے تو فرمایا ہے: ’کان ممن یفتعل الحدیث‘ ’’وہ ان میں سے تھا جو حدیث گھڑتے ہیں۔‘‘ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’اس کی حدیثیں دریائے دجلہ میں پھینک دو۔‘‘[4] اس لیے جب اس کا یہ راوی متروک ،کذاب اور وضاع ہے تو اس کی روایت سے استدلال چہ معنی دارد؟ اور یہ ’’صحیح‘‘ کیسے؟ اگرچہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ہی نے نقل کیوں نہ کی ہو اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر سکوت ہی کیوں نہ کیا ہو۔ بلکہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الصغیر[5] میں یہی روایت حکیم، ابن عدی، اور حلیہ سے نقل کی اور اس پرضعیف کی علامت لگائی ہے۔ اسی سے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت اور کنز العمال کے مقدمہ کے مطابق علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت کے ’’قاعدہ‘‘ کی بھی قلعی کھل جاتی ہے۔ بلکہ شیخ البانی مرحوم نے السلسلۃ الضعیفہ[6] میں اسے’’موضوع‘‘ قرار دیا ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ اور اس کی دیگر روایات نقل کر کے کہا ہے یہ سب موضوع ہیں۔ مزید عرض ہے کہ مقدور بھر کوشش کے باوجود ہمیں یہ روایت المستدرک میں نہیں ملی۔ غالب گمان یہ ہے کہ کنز العمال کے پہلے مقام[7]  میں’’ک‘‘یعنی امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی المستدرک کا اشارہ ناسخ کی غلطی ہے یہ’’ک‘‘ نہیں بلکہ ’’کر‘‘ یعنی ابن عساکر ہے، جیسا کہ جلد(8/199) میں ہے۔ بعد ازیں بحمد اللہ یہ روایت ابن عساکر میں مل گئی اور اس پر یہ کلام
Flag Counter