Maktaba Wahhabi

210 - 413
نقل کیا ہے۔ اور فرمایا ہے: کہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے الثقات میں اس کا ذکر کیا ہے اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ’شامي معروف‘ کہا ہے۔ مگر تنہا امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ کے ثقات میں ذکر کرنے سے اس کی توثیق نہیں ہوتی کیونکہ وہ مجاہیل کی توثیق میں متساہل مشہور ہیں۔ اسی طرح امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی اس کی توثیق کو مستلزم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریب التہذیب[1] میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مجہول ہی قرار دیا ہے ۔ بلکہ امام ابن القطان نے بھی کہا ہے ’مجہول الحال[2] جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ روایت الاسود کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔غالباً امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی بنا پر اس کی سند کو کمزور قرار دیا ہے۔ اس لیے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قاعدہ درست نہیں۔ اور مولانا عثمانی کا اس پر کورانہ اعتماد بھی صحیح نہیں۔ اس روایت کے ضعف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ یہ اجماع کے بھی خلاف ہے۔کیونکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے، جسے خود مولانا صاحب نے بھی نقل کیا ہے، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور بعد کے اہلِ علم کا اجماع ہے کہ نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز نہ پڑھے الاّ یہ کہ وہ پہلے پاک صاف ہو جائے تو وہ غسل کر کے نماز پڑھے۔ مگر اس روایت میں ہے کہ جب نفاس والی عورت کے ساتھ دن گزر جائیں پھر وہ طہارت دیکھے(خون بند ہو جائے) تو غسل کر کے نماز پڑھے۔ ظاہر ہے کہ ’’سات‘‘ دن کی یہ تعیین امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر کردہ اجماع کے منافی ہے۔ مگر مولانا عثمانی نے اپنے ’’قاعدۂ‘‘ ’’تصحیح‘‘کی بنا پر اس تعیین کی یہ تاویل کی ہے ’وقید السبع اتفاقی‘ کہ سات دن کی قید اتفاقی ہے۔[3] یہ تأویل انھوں نے اس لیے کی وہ اس روایت کو اپنے ’’ضابطہ‘‘ کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں۔لیکن جب یہ ’’ضابطہ‘‘ ہی صحیح نہیں تو یہ تأویل باطل اور محض تکلف ہے۔ یہاں یہ بات بھی یقینا فائدہ سے خالی نہیں کہ حضرت موصوف نے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا کلام کے بعد علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ ’’البحر‘‘ میں ہے کہ علماء کا اتفاق
Flag Counter