Maktaba Wahhabi

209 - 413
کی ہے اور فرمایا: کہ’’اس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے سکوت کیا ہے لہٰذا اس کے سب راوی ثقہ اور غرابت کے باوجود یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘حالانکہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت السنن الکبری[1] میں نقل کر کے کہا ہے۔ ’إسنادہ لیس بالقوی‘ ’’ اس کی سند قوی نہیں۔‘‘ علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر نقد کرتے ہوئے فرمایا ہے : کہ اگر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بقیہ کی وجہ سے ہے اور وہ مدلس ہے تو اس نے سماع کی صراحت کی اور مدلس جب سماع کی تصریح کرے تو وہ مقبول ہوتا ہے۔ مگر علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تعاقب عدمِ تدبر پر مبنی ہے کیونکہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے تو اولاً: مستدرک سے أبوسھل بن زیاد ثنا محمد بن إسماعیل السلمی ثنا عبد السلام بن محمد ولقبہ سلیم ثنا بقیۃ أخبرنی الأسود بن ثعلبۃ کی سند ذکر کی ہے ۔ پھر سنن دارقطنی کے حوالے سے یہی روایت أبوسہل بن زیاد ثنا محمد بن إسماعیل عن عبد السلام سلیم ثنا بقیۃ قال ثنا علی بن علی عن الأسود سے بیان کی پھر فرمایا : ’وفی آخرہ قال سلیم: فلقیت علی بن علی فحدثنی عن الأسودالخ پھر فرمایا : ’ھذا أصح وإسنادہ لیس بالقوی‘ یہ اصح ہے۔مگر اس کی سند قوی نہیں۔گویا امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں اس بات کا اضافہ ہے کہ عبد السلام بن محمد سلیم نے بغیر واسطہ بقیہ کے براہِ راست علی بن علی سے بھی یہ روایت سنی ہے۔ اسی لیے اس سند کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’ھذا اصح‘ زیادہ صحیح کہا ہے۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا : کہ اس کی سند قوی نہیں۔اس لیے جب امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’بقیہ‘‘ کے علاوہ سند کو ’’اصح‘‘ قرار دے کر اسے ’’لیس بالقوی‘‘ کہا ہے تو علامہ ماردینی رحمۃ اللہ علیہ کا بقیہ کی وجہ سے تعاقب بالکل بے معنی اور سراسر بے انصافی پر مبنی ہے۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو ’لیس بالقوی‘ اس لیے کہا ہے کہ اس کا راوی ’الأسود بن ثعلبۃ‘ مجہول ہے۔ چنانچہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان[2] میں امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ ’لا یعرف‘ یہی قول حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب [3] میں بھی
Flag Counter