Maktaba Wahhabi

206 - 413
متعلقہ مباحث شیخ عداب محمود کی کتاب ’رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم أئمۃ الجرح والتعدیل بین التوثیق والتجھیل ‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ حیرت ہے کہ شیخ ابو غدہ ایک طرف تو یہ فرماتے ہیں: ((إذا لم یذکرفی الراوی جرحاً ولا ذکرفیہ غیرہ جرحاً فالبراء ۃ من الجرح ھی الأصل)) [1] ’’کہ جب(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یا امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ ) راوی میں جرح ذکر نہ کریں اور نہ کسی دوسرے نے اس پر جرح کی ہو تو پھر جرح سے براء ت ہی اصل ہے۔‘‘ جب ان کے نزدیک یہی اصول ہے تو کیا عکرمہ بن ابراہیم پر امام یحییٰ بن معین ،نسائی، ابو داود، ابن الجارود، ابن شاہین، یعقوب بن سفیان، البزار، عمروبن علی اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہم نے جرح نہیں کی؟جب ان ائمہ سے جرح موجود ہے تو پھر اس صفحہپر زادالمعاد کے حوالے سے عکرمہ بن ابراہیم کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے سکوت سے استدلال کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔ بالخصوص جبکہ شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک راجح اور صحیح موقف یہی ہے کہ جب جارح عارف اور اسباب جرح سے واقف ہو تو مبہم جرح مقبول ہے جیسا کہ تفصیلاً انھوں نے حاشیہ الرفع[2] میں ذکر کیا ہے۔ ہماری ان گزارشات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس روایت کا مرکزی راوی عکرمہ بن ابراہیم ضعیف ہے بلکہ تمام ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک ضعیف بلکہسخت ضعیف ہے۔ کسی سے اس کی صراحتاً توثیق ثابت نہیں۔ امام بیہقی ،علامہ ہیثمی، علامہ زیلعی، حافظ ابنِ حجر، علامہ سیوطی اور علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہم نے اس کی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ثالثاً: عکرمہ کے علاوہ سند میں عبد الرحمن بن الحارث بن سعد بن ابی ذباب بھی ہے۔جس کا ترجمہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر نہیں کیا۔ البتہ امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ
Flag Counter