Maktaba Wahhabi

183 - 413
نے نیل الاوطار[1] میں ضعیف قرار دیا ہے۔ بلکہ علامہ محمد انور کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی العرف الشذی[2] میں رفع الیدین کرنے نہ کرنے کی مرفوع روایات کو ضعیف ہی کہا ہے۔ مگر ایک حضرت صاحب ہیں جو اسے مقبول اور قابلِ عمل قرار دینے میں سرگرداں ہیں اور اس کے لیے انھیں بڑے متنوع پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔ یہ بات تو ضمناً ذکر ہوئی ۔ اصل بات تو حافظ ابنِ حزم رحمۃ اللہ علیہ کے استدلال کے تناظر میں تھی کہ وہ اسی مرفوع حدیث سے استدلال کرتے ہیں جسے وہ صحیح قابلِ حجت سمجھتے ہیں۔ مگر مولانا عثمانی مرحوم نے محض علامہ عینی کی نقل کے سہارے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کے بارے میں بھی اسی اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے ان کی مرفوع روایت کے معارض قرار دے کر مرفوع روایت کو مجروح قرار دیا ۔ جس کی حقیقت آپ معلوم کر چکے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں یہ بات بجائے خود وضاحت طلب ہے کہ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو موقوف روایات حجت ہی نہیں۔ چہ جائیکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بے بنیاد اثر کے بارے میں یہ دعوی داغ دیا جائے کہ اس سے ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے استدلال کیا ہے اور پھر کہا جائے کہ محدث کا استدلال اس کی تصحیح ہوتی ہے۔ چنانچہ انھوں نے کہا ہے: ((الموقوف والمرسل لاتقوم بھما الحجۃ)) [3] ’’موقوف اور مرسل سے حجت قائم نہیں ہوتی۔‘‘ مزید ایک دوسطر بعد لکھتے ہیں: ((لا حجۃ فی أحد دون رسول اللّٰه صلي اللّٰهُ عليه وسلم )) ’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے قول و عمل میں حجت نہیں۔‘‘ المحلی ہی میں نہیں ’’احکام الاحکام‘‘ اور ’’النبذ الکافیہ‘‘ میں بھی انھوں نے یہی کچھ فرمایا ہے۔ لہٰذا جب علامہ ابن حزم کے نزدیک آثار سے استدلال ہی درست نہیں تو ابن عمر رضی اللہ عنہما
Flag Counter