Maktaba Wahhabi

176 - 413
بات چل نکلی ہے تو حضرت عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے استدلال پر بھی ایک نظرڈال لیجئے اس بات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر عمل کرنا چاہیے کہ ’’اس کا کوئی معارض نہیں۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کے بارے میں پہلے خود ان کی رائے دیکھئے فرماتے ہیں: ’’ ترمذی کی اس روایت میں یزید بن سنان ابو فروہ ضعیف ہے جیسا کہ تقریب میں ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسے ثقہ کہا ہے جیسا کہ الترغیب میں ہے، مروان بن معاویہ اسے ثبت کہتے تھے ’کان یثبتہ‘ ، ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ محلہ الصدق یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ، اور بخاری رحمۃ اللہ علیہ مقارب الحدیث کہتے ہیں اور اس سے شعبہ روایت کرتے ہیں(تہذیب)اور شعبہ اسی سے روایت کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ اس روایت میں یحییٰ بن یعلی الأسلمی بھی ہے جو ضعیف ہے( تقریب) لیکن اس سے اجلہ اعلام نے روایت کی ہے اور ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے صحیح میں ایک روایت لی ہے لہٰذا وہ لابأس بہ ہے اور اس کی حدیث لکھی جائے گی۔‘‘[1] مولانا عثمانی کا ان دونوں راویوں کے بارے میں دفاع کی حیثیت کا اندازہ تو اسی سے لگا لیجئے کہ دونوں کے دفاع میں تہذیب سے جو کچھ نقل کیا ہے۔ اس کے باوجود تہذیب کے مصنف کا تقریب التہذیب میں فیصلہ دونوں کے بارے میں یہ ہے کہ وہ ضعیف ہیں۔ ایک طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر ان کے بارے میں توثیق کا کوئی وزن تھا تو حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں یہ فیصلہ نہ دیتے۔ اور اگر مولانا صاحب ان کے اس فیصلے سے متفق نہیں تو انصاف کا تقاضاتھا کہ دونوں کے بارے میں جرح نقل کر کے جرح وتعدیل کے اقوال میں اصول نقد کے مطابق فیصلہ فرماتے، مگر انھوں نے اس سے الٹی راہ اختیار کی۔ اس لیے ہم اس کی وضاحت قارئین کرام کی خدمت میں پیش کیے دیتے ہیں۔ یحییٰ بن یعلی اسلمی کے بارے میں حضرت عثمانی نے صرف یہ فرمایا ہے کہ اس سے اجلّہ
Flag Counter