Maktaba Wahhabi

175 - 413
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین نہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ المبسوط [1] میں صرف حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قطعاً نہیں۔ غور کیجئے کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا رفع الیدین نہ کرنے کا عمل المبسوط سے بھی نقل کیا،مگر اس نقل پر غالباً اعتماد نہ ہونے کی بنا پر انھیں علامہ ابن حزم کا سہارا لینا پڑا۔ مگر افسوس یہ سہارا بھی غلط اور بے بنیاد ثابت ہوا۔ غالباً المبسوط سے جو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا تھا وہی نام ذہن میں رہا اور ابن حزم کے حوالے سے ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘‘ کی جگہ ابن عمر لکھ دیا گیا ۔ نقل اقوال میں اس قسم کا تساہل بعید نہیں ۔واللہ اعلم ممکن ہے کہ کسی صاحب کے ذہن میں یہ بات آئے کہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے رفع الیدین نہ کرنے کا عمل المبسوط میں تو منقول ہے لہٰذا تعارض تو پھر بھی رہا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ المبسوط کے مصنف علامہ السرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تر فقہی عظمتوں کے باوجود حدیث وآثار نقل کرنے میں ان کا تغافل وتساہل اسی طرح ہے جس طرح عموماً دیگر فقہاء کرام کا۔ جن کے بارے میں مولانا عبد الحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ نے النافع الکبیر[2] اور اپنی دیگر تصانیف میں، علامہ علی قاری نے موضوعات کبیر[3] میں حتی کہ علامہ ابن جوزی، علامہ نووی اور حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا ہے: کہ نقل روایت میں فقہاء کرام پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے جس کی ضروری تفصیل ہماری کتب’’احادیث ہدایہ‘‘ اور ’’مقالات‘‘ جلد اول میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ نماز میں رفع الیدین کے منسوخ ہونے پر فقہاء نے، بشمول علامہ السرخسی رحمۃ اللہ علیہ ، جن روایات سے استدلال کیا ہے وہ بھی تمامتر موضوع اور بے اصل ہیں۔ جس کی تفصیل ہماری تصنیف ’’مقالات ‘‘ جلد دوم میں ملاحظہ فرمالیجئے۔ اس لیے نمازجنازہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رفع الیدین نہ کرنے کا ذکر بھی بے اصل ہے جبکہ صحیح سند سے ان سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ اس ثبوت کے بعد انکار کی روایت پر تو یہی عرض ہے کہ ثبت العرش ثم انقش
Flag Counter