Maktaba Wahhabi

167 - 413
کرتے ہیں۔[1] ایک جگہ فرماتے ہیں: ’کذا رأیتہ فی المستدرک [2] [3]اس لیے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ المستدرک ان کے پیش نظر ہی نہیں تھی۔ اگر وہ زیر بحث روایت المستدرک میں دیکھنے کی زحمت کر لیتے تو شاید ان تکلفات کی ضرورت ہی نہ رہتی اور نہ بے بنیاد سہاروں سے اس کا دفاع کرتے، کیونکہ المستدرک[4] میں یہ روایت ولید ’’عن‘‘ کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ ساری کارروائی بے کار اور سراسر بے اصولی پر مبنی ہے۔ قارئین کرام! مولانا عثمانی کی یہ تطویل لا طائل محض علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے دفاع میں ہے۔ ہم عرض کر آئے ہیں اذان کے جواب میں جو موقف علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیاوہ امام ابو حنیفہ، قاضی ابو یوسف، امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہم کا قطعاً نہیں اور نہ ہی یہ حنفی موقف ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ کبار علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ مگر یہ حقیقت بھی خود حنفی اکابرین نے بیان کی ہے کہ حنفی مذہب کے خلاف ان کے موقف کو پذیرائی حاصل نہیں۔ چانچہ انھی کے تلمیذِ رشید علامہ قاسم قطلوبغا رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: ((لا یعمل بأبحاث شیخنا التی خالف المذہب)) [5] ’’ کہ ہمارے شیخ کے وہ مباحث جو مذہب کے خلاف ہیں ان پر عمل نہ کیا جائے۔‘‘ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید کی اگر یہ بات درست ہے تو مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کوشش بے فائدہ ہے معترض کے جواب میں تو انھوں نے بڑا تکلف کیا۔ علامہ قاسم قطلوبغا رحمۃ اللہ علیہ کی یہ جسارت،بغاوت کے زمرہ میں نہ ٹھہرے۔ اسی طرح اہلِ علم خوب جانتے ہیں ہدایہ کی احادیث کی تخریج میں اکثر وبیشتر علامہ ابنِ ہمام رحمۃ اللہ علیہ کا اعتماد علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ پر ہے اور بہت کم مقامات پر اس پر اضافہ کر پائے ہیں۔ جس کااعتراف علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:
Flag Counter