Maktaba Wahhabi

166 - 413
حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ بالفرض اگر وہ ولید کی تدلیس کا ذکر بھی کردیتے تو وہ’’عن ‘‘ سے روایت نہ کرتے؟ ان کے نزدیک عفیر کی وجہ سے سند ضعیف ہونے کے باوجود ’’عن‘‘ سے روایت اس لیے ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔ انھوں نے اپنے بیان کے مطابق ’’عن‘‘ سے بیان کیا مگر مولانا عثمانی مرحوم نے ان کے مکمل اصول کو دیکھنے کی زحمت ہی نہیں فرمائی۔ چلئے ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے نقل کردہ الفاظ ،مقدمہ کی اس عبارت: ’فإذا کان إسناد الحدیث صحیحا أوحسناً أو ما قاربھما صدرتہ بلفظ عن‘ کہ جب حدیث کی سند صحیح یا حسن یا صحیح وحسن کے قریب ہو گی تو میں اس روایت کو ’’عن‘‘ کے ساتھ ذکر کروں گا ، کے اگلے صفحہ پر دوسری تیسری سطر میں ہیں اور اس طرف ان کی توجہ نہیں گئی، مگر کیا کیجئے کہ اسی عبارت کے متصل بعد ہی حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’ وکذلک إن کان مرسلاً أومنقطعاً أومعضلاالخ ’’کہ اگر سند مرسل یا منقطع یا معضل ہو گی یا سند میں راوی مبھم ہو گا مگر باقی سند کے راوی ثقہ یا اس میں کلام غیر معتبر ہو گا تو اسے بھی’’عن‘‘ سے ذکر کروں گا۔‘‘ اب انصاف شرط ہے کہ یہ عبارت تو اس کے متصل بعد ہے اس کی طرف بھی انھوں نے التفات کی تکلیف نہیں اٹھائی آخر کیوں؟ ع بے زبانی ہے زبان میری قارئین کرام! جب امام منذری رحمۃ اللہ علیہ مرسل، منقطع، معضل سند سے مروی روایت کو’’عن‘‘ سے ذکر کرنا بیان کرتے ہیں تو اس کے بعد ولید بن مسلم کے عنعنہ کی علت بیان نہ کرنے کا بہانہ خوئے بدرابہانہ بسیار کا مصداق نہیں؟ ثالثاً:آخر کیا وجہ ہے یہ سب تکلفات اور اتنی لمبی چوڑی تاویلات ولید کی معنعن روایت کو سہارا دینے کے لیے تو اختیار کی جاتی ہیں۔ المستدرک کی طرف مراجعت کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وہ ان کے پیش نظر نہیں تھی؟ حالانکہ وہ تو اس سے بالاسناد احادیث نقل
Flag Counter