Maktaba Wahhabi

156 - 413
اگر حدیث میں صلاحیت ہے تو ’’صالح الحدیث‘‘ اضافت کا ذکر بے فائدہ ہے۔ بالفرض اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ ’’صالح‘‘ سے مراد توثیق ہے یا امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے ’’صالح الحدیث‘‘ ہی مراد لیا ہے تو عرض ہے کہ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ ہی سے معلوم کر لیا جائے کہ ان کے نزدیک یہ تعدیل کس نوعیت کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’اذا قیل صالح الحدیث فإنہ یکتب حدیثہ للإعتبار[1] کہ جب صالح الحدیث کہا جائے تو اس کی حدیث اعتباراً لکھی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ایسے راوی کی حدیث ان کے نزدیک استدلال کے طور پر نہیں بلکہ اعتبار کے طور پر لکھی جائے گی۔ مگر مولانا موصوف اس کے برعکس زبان کو حسن الحدیث قرار دیتے ہیں اور اس کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔اسی سے علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ کا امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ سے ’وثقہ أبو حاتم‘ نقل کردینے کی بھی قلعی کھل جاتی ہے۔ کجا ثقہ راوی اور کجا محض اعتبار کے طور پر روایت (شتان بینھما)بے اعتدالی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اسی طرح ابنِ یونس رحمۃ اللہ علیہ کے قول ’وکان فاضلاً‘ کو بھی زبان کی توثیق شمار کرنا انھی کا کمال ہے۔ حالانکہ یہ لفظ بھی زبان بن فائد کے نیک اور عبادت گزار اور راوی حدیث ہونے کے اعتبار سے ہے۔توثیق میں یہ قطعاً صریح نہیں۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ زبان بن فائد کو حسن الحدیث قرار دینے اور اس کی حدیث سے استدلال کرنے میں مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے پے درپے ٹھوکر کھائی ہے وہ بلاشبہ بڑے صالح اور عبادت گزار تھے ،مگر روایت حدیث میں ضعیف اور ناقابل احتجاج تھے۔ جس راوی کے بارے میں احادیثہ مناکیر، منکر الحدیث جداً، لا یحتج بہ، اور ضعیف کے الفاظ ہوں اور کوئی قابلِ اعتبار توثیق نہ ہو تو اس کی روایت حسن اور اس سے استدلال کیونکر ہو سکتا ہے؟
Flag Counter