Maktaba Wahhabi

155 - 413
((إذا قالوا فیہ: ’صالح‘ أو ’شیخ صالح‘ بدون إضافۃ ’الحدیث‘ إلیہ فإنما یعنون بہ الصلاحیۃ فی دینہ، جریا علی عادتھم فی اطلاق الصلاحیۃ، حیث یریدون بھا الدیانۃ، أماحیث أرید الصلاحیۃ فی الحدیث فیقیدونھا)) [1] ’’جب راوی کے بارے میں’’صالح‘‘ یا ’’شیخ صالح‘‘ ’’الحدیث‘‘ کی اضافت کے بغیر ہو تو اس سے ان کا مقصد راوی کی دین میں صلاحیت ہے۔ کیونکہ ان کی عادت ہے جب وہ دین داری مراد لیتے ہیں تو مطلق صلاحیت ذکر کرتے ہیں اور جب حدیث میں صلاحیت کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے حدیث سے مقید کرتے ہیں۔یعنی ’’صالح الحدیث‘‘ کہتے ہیں‘‘ یہی بات حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے النکت [2] میں کہی ہے۔لہٰذا جب ’’صالح‘‘ یا شیخ صالح‘‘ سے راوی کی حدیث میں توثیق ہی مراد نہیں ہوتی تو محض اس جملہ سے زبان کو مختلف فیہ اور اسی بنیاد پر پھر اسے ’’حسن الحدیث‘‘ کہنا صریحاً دھاندلی نہیں تو اور کیا ہے؟ رہی یہ بات کہ علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ نے تو ’’وثقہ ابو حاتم‘‘ کہا ہے تو عرض ہے کہ یہ علامہ المنذری رحمۃ اللہ علیہ کا وہم ہے انھوں نے ہی نہیں علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مجمع الزوائد[3] میں کہا ہے۔ ’ضعفہ ابنِ معین ووثقہ أبو حاتم‘ اسی طرح مجمع[4] میں ہے ’ وثقہ ابو حاتم وضعفہ غیرہ‘ مگرمجمع [5] میں یہ بھی ہے ’ضعفہ أحمد وابن معین وقال أبو حاتم صالح‘ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ کے قول’’صالح‘‘ کو ہی توثیق پر محمول کیا ہے۔ مگر یہ ان کا وہم ہے۔ ’’صالح ‘‘اور صالح الحدیث‘‘ میں فرق ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں اور یہ بات تو بدیہی ہے کہ ’’صالح‘‘ سے ہی مراد
Flag Counter